تفہیم المسائل
سوال: ڈیرہ غازی خان کے رہائشی ایک شخص نے 12ائمۂ اہل بیتؓ کی فرضی تصاویر اور درمیان میں رسول اللہ ﷺ کی فرضی تصویر بنواکر ایک پینافلیکس لگایا، علماء نے جب اس شخص کو بلاکر پوچھا تو اس نے کہا : میں نے محبت میں یہ سب کچھ کیا ، میں اِن عظیم ہستیوں کی گستاخی کا تصور بھی نہیں کرسکتا، یہ سب میری لاعلمی کے سبب ہوا ہے ، میں اس پر صدقِ دل سے توبہ کرتا ہوں۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس کا یہ عذر قبول کیا جائے گا ؟ (علامہ اشرف گورمانی ، کراچی )
جواب: شریعتِ مُطہرہ میں کسی بھی جاندار کی تصویر بنانا ممنوع ہے ، کسی بزرگ یا مُعظّم دینی ہستی کی تصویر بنوا کر عقیدت کا اظہار کرنا شرک سے مماثلت رکھتا ہے، یہی سبب ہے کہ تعظیم وتکریم کی نیت سے بھی تصویر بنوانا یا بنانا حرام ہے، حدیث پاک میں ہے :ترجمہ:’’ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: حضرت ام سلمہ ؓنے رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا کہ انہوں نے حبشہ کی سرزمین میں ایک گرجا دیکھا تھا ، جس کا نام ماریہ تھا ،انہوں نے اس کا ذکرکیا اوران صورتوں کے مجسموں کا ذکر کیا جو انہوں نے اس میں دیکھے تھے ،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان میں سے کوئی نیک بندہ یا نیک شخص فوت ہوجاتا، تو یہ اس کی قبر پر مسجد (یعنی عبادت گاہ) بنا دیتے اور اس عبادت گاہ میں اُن کی صورتوں کے مجسمے بنادیتے ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین مخلوق ہیں،(صحیح بخاری: 434)‘‘۔
علامہ علی قاریؒ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’جب اُن میں کوئی مرد صالح نبی یاولی فوت ہوجاتا، تو اس کی قبر پر مسجد یعنی عبادت گاہ بنالیتے اور اُس کا نام کنیسہ رکھتے، پھر اُس کنیسہ میں اُن بزرگوں کی تصویریں (یامجسمے) بنا دیتے تاکہ اُن کی یاد باقی رہے اور اُن کی خاطر عبادت میں رغبت پیداہو،(مرقاۃ المفاتیح ، جلد ثامن، ص:338)‘‘۔
شیخ الحدیث والتفسیر علامہ غلام رسول سعیدی علامہ ابوالعباس احمد بن عمر القرطبی کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’مُتقدّمین نصاریٰ اپنے مردصالح کی قبر پر اس کا مجسمہ بناکر اس لیے رکھتے تھے، تاکہ اس مردصالح کی صورت دیکھ کر وہ مانوس ہوں اور ان کے نیک اعمال کو یاد کریں اوراس کی عبادت کی طرح خود بھی عبادت کرنے کی کوشش کریں اور ایسے نیک بندوں کی قبروں کے پاس اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ،پھر جب کافی زمانہ گزرگیا اوران کے بعد متاخرین آئے تووہ قبروں پر ان مجسموں کی اَغراض سے ناواقف تھے اور شیطان نے ان کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈالا کہ ان کے آباء واجداد ان مجسموں کی عبادت کرتے تھے تو انہوں نے ان مجسموں کی تعظیم کی اوران کی عبادت کرنی شروع کردی، نبی اکرم ﷺ نے ایسے کاموں سے ڈرایا اوران کاموں کو سختی سے منع کیا اوران کاموں پر عذاب کی وعید سنائی اور جو چیزیں غیر اللہ کی عبادت کا ذریعہ بن سکتی تھیں، ان کا دروازہ بند کردیا اور فرمایا: ’’اس قوم پر اللہ کاشدید غضب نازل ہوتا ہے، جو اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیتی ہے ،پس تم قبروں کو مساجد نہ بناؤ ‘‘۔(مؤطاامام مالک،کتاب السفر :85)یعنی میں تمہیں اس کام سے منع کرتاہوں اور فرمایا: ’’اللہ عزوجل یہود ونصاریٰ پر لعنت کرے ،جنہوں نے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو مساجد بنالیا، (صحیح مسلم:532)‘‘۔اور فرمایا:’’ اے اللہ ! میری قبر کو بت نہ بنا،جس کی عبادت کی جائے، (تَنْوِیْرُالْحَوَالِک،ص:189، مؤطاامام مالک ،کتاب السفر:85)‘‘۔
اسی وجہ سے مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺ کی قبر انور پر آپ کی عبادت کا ذریعہ قطع کرنے میں بہت مبالغہ کیااور آپ کی قبر کی دیواروں کو بہت اونچا کردیا اور ان میں داخلہ مسدود کردیا، پھر انہیں یہ خوف ہوا کہ کہیں آپ کی قبر کو قبلہ نہ بنالیا جائے توانہوں نے قبر کے دورکنوں پر دودیواریں بنادیں، حتّٰی کہ کسی شخص کے لیے نماز میں عین قبر کی طرف منہ کرنا ممکن نہ ہو، اسی وجہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایاتھاکہ اگر یہ خطرہ نہ ہوتا، تو آپ کی قبر کو ظاہر کردیا جاتا،(اَلْمُفْہِمْ، جلد2، ص:128نعمۃ الباری، شرح صحیح بخاری ،جلد2،ص:189-190)
مذکورہ مسئلے میں اس شخص کا رسول اللہ ﷺ اور ائمۂ اہل بیتؓ کی فرضی تصاویر بنوانا اور پھر عقیدت کا اظہار کرنا اس فرضی تصویر کے حقیقی سمجھنے کے مُترادف ہے ، گویا اس فرضی تصویر کے نقوش اور خد وخال کے بارے میں اُس نے یہ یقین کرلیا کہ رسول اللہ ﷺ کاچہرۂ مبارک ایساہی تھا ، یہ امر شرعی مفاسد کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے اور اگر اس سلسلے کو نہ روکا جائے تو بدعات کا ارتکاب کرتے کرتے بندہ شرک کے قریب پہنچ جاتا ہے۔
غرض رسول اللہ ﷺ ،اہل بیت اطہارؓ اور صحابۂ کرامؓ کی فرضی اورخیالی تصویریں بنانا ،اُن کی حرمت کے منافی ہے اور مستقبل میں ممکنہ طورپر رونما ہونے والے کئی مفاسد کا سبب بن سکتا ہے ، اس لیے اس کی شدّت سے ممانعت کی جائے ، نیز ایک مرحلے پر جاکر مآلِ کار یہ چیزیں شرک وبدعات ِ قبیحہ میں مبتلا ہونے کا سبب بنتی ہیں اورجو چیز انجامِ کار شر کا باعث بنے ، وہ شر ہوتی ہے اور اس سے اجتناب لازم ہے۔
اگر مذکورہ شخص صدقِ دل سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں علانیہ توبہ کرے اور علماء کو یہ یقین دلائے کہ اس سب کے پیچھے اس کے باطل مقاصد کار فرما نہیں تھے اور آئندہ کے لیے دینی معاملات میں کسی عالمِ دین سے رہنمائی لیے بغیر کوئی کام نہ کرنے کا عہد کرے ، تو اللہ تعالیٰ سے اس کی توبہ کی قبولیت کا گمان رکھتے ہوئے اُسے معاف کردیاجائے ، واللہ اعلم بالصواب۔