• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاشی لحاظ سے 2023ء پاکستانیوں کیلئے ایک مشکل ترین سال ثابت ہوا جس میں ریکارڈ مہنگائی، بیروزگاری، روپے کی قدر میں کمی، بجلی گیس کی قیمتوں اور شرح سود میں اضافہ، صنعتی پیداوار، ایکسپورٹ اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی اور سیاسی عدم استحکام جیسے چیلنجز کا حکومت کو سامنا رہا ،جس سے ملکی جی ڈی پی گروتھ منفی ہو گئی۔ PDM حکومت ختم ہونے سے چند روز پہلے آئی ایم ایف اسٹینڈ بائی معاہدے کی وجہ سے حکومت 1.2ارب ڈالر کی پہلی قسط لینے میں کامیاب ہوئی جسکے بعد دیگر عالمی اداروں اور دوست ممالک نے بھی پاکستان کو قرضے دیئے جن سے ملکی معیشت میں کچھ بہتری آئی لیکن بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے 2023 ءمیں افراطِ زر یعنی مہنگائی ریکارڈ 39فیصد کی سطح پر پہنچ گئی جبکہ اسٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ ریکارڈ 22فیصد کی شرح تک رہا۔

2023 ءمیں PDM حکومت نے قانون سازی کے ذریعے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) قائم کی جس کا بنیادی مقصد زراعت، معدنیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی کمیونی کیشن، دفاعی پیداوار اور توانائی کے شعبوں میں مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری لانا ہے۔ یہ ادارہ سول اور عسکری قیادت میں سرمایہ کاروں کیلئے ون ونڈو آپریشن کا کام کرے گا جسکے بڑے منصوبوں میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی زراعت اور فوڈ سیکورٹی کے شعبوں میں شراکت داری شامل ہے جس کیلئے پاکستان گرین اینشیٹو کے پہلے مرحلے میں چولستان کے صحرائی علاقوں میں زمین کو قابل کاشت بنایا گیا ہے۔ وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے حال ہی میں یو اے ای اور کویت کے دوروں میں یادداشتی مفاہمتوں (MOU) پر دستخط کئے ہیں جبکہ سعودی عرب اور یو اے ای کے ساتھ 14سال بعد نئے سرمایہ کاری معاہدے بھی فائنل ہوئے ہیں جس نے پاکستان اور خلیجی ممالک (GCC) کے مابین FTA معاہدے کی راہ ہموار کی ہے۔

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق ملک کے موجودہ زرمبادلہ ذخائر 13ارب ڈالر ہیں جس میں اسٹیٹ بینک کے ذخائر 8ارب ڈالر اور نجی بینکوں کے ذخائر 5ارب ڈالر شامل ہیں۔ حکومت کے کریک ڈائون اور اسٹیٹ بینک کی ایکسچینج کمپنیوں پر سختی کی وجہ سے پاکستانی روپے کی قدر انٹربینک 283روپے اور اوپن مارکیٹ میں اس کا اضافی فرق ختم ہوگیا، افراط زر کم نہ ہونے کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کو اپنا پالیسی ریٹ 22 فیصد پر رکھنا پڑا جس سے بینکوں کی شرح سود 24سے 25فیصد تک پہنچ گئی جس سے نجی شعبے کے قرضوں اور صنعتی شعبے کی پیداوار میں 14.55فیصد کمی آئی۔ حکومتی گردشی قرضے بڑھ کر 5500ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں جس میں بجلی کے شعبے کے 2600ارب روپے اور گیس کے شعبے کے 2900ارب روپے کے قرضے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ خسارے میں چلنے والے حکومتی ادارے بھی سالانہ 500ارب روپے نقصان کررہے ہیں جس پر آئی ایم ایف کو تشویش ہے۔ IPP کے غلط معاہدوں کی وجہ سے پاکستان میں بجلی کے نرخ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں 45فیصدزیادہ ہیں۔ نگراں وزیر توانائی محمد علی کے مطابق خطے کے دیگر ممالک میں بجلی 8سے 9سینٹ فی یونٹ ہے جبکہ پاکستان میں بجلی کی قیمت 15 سینٹ فی یونٹ ہے اور اس حساب سے گھریلو صارفین کو بجلی 42.72روپے یونٹ فراہم کی جارہی ہے۔ نگراں حکومت نے آئی ایم ایف سے 700ملین ڈالر کی دوسری قسط لینے کیلئے گھریلو صارفین کے گیس کے نرخوں میں 174فیصد، کمرشل صارفین کیلئے 137فیصد اور صنعتی شعبے کیلئے 193 فیصد ریکارڈ اضافہ کیا ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج (PSX) جو 66000 انڈیکس کی حد عبور کرچکا تھا، کم ہوکر 64600 انڈیکس کی سطح پر آگیا ہے۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے 8 دسمبر کو 30ارب روپے (105.8 ملین ڈالر) کا پہلا ’’اسلامک اجارہ سکوک بانڈ‘‘ جاری کیا جو کامیاب رہا۔ اسٹیٹ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملکی کرنٹ اکائونٹ خسارے میں بہتری آئی ہے جو 1.5ارب ڈالر رہ گیا ہے جبکہ تجارتی خسارے میں بھی کمی آئی ہے۔2023ءمیں کاٹن کی پیداوار 8ملین بیلز ہوچکی ہے جبکہ 2022ء میں بمشکل 5ملین بیلز تھی۔ چاول کی فصل میں 18فیصد اضافہ اور گندم کی فصل بھی بمپر ہوئی ہے۔ مجموعی طور پر پاکستانیوں کیلئے 2023ءایک مشکل ترین سال ثابت ہوا اور عوام مہنگائی، بیروزگاری، روپے کی قدر میں کمی اور بجلی گیس کے اونچے نرخوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہے لیکن سال 2024کیلئے معاشی ماہرین پرامید ہیں کہ معیشت میں بہتری آئے گی مگر الیکشن اور نومنتخب حکومت آنے کے بعد ملک میں سیاسی عدم استحکام کے امکانات متوقع ہیں۔

2023 کی منفی جی ڈی پی گروتھ کے مقابلے میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان، آئی ایم ایف، بلومبرگ اور اقوام متحدہ نے 2024 کیلئے پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ 2 سے 3 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے جبکہ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اس سال پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان اور جنوبی ایشیاء کے دیگر کم آمدنی والے ممالک کو فوڈ سیکورٹی اور معاشی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آئی ایم ایف نے 2024ءمیں عالمی گروتھ 3 فیصد رہنے اور چین میں رئیل اسٹیٹ شعبے میں بحران کی پیش گوئی کی ہے۔ مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے 2024ءکو آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI) کا سال قرار دیا ہے جو پرسنل کمپیوٹر کے بعد اب تک سب سے اہم پیشرفت ہے لہٰذا 2024ءپاکستان اور دنیا کیلئے نئی امیدیں لے کر آئے گا۔

تازہ ترین