• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمان کے اس استحقاق کو هہرگز ه کسی سوالیہ نشان کے تحت نہیں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کسی بھی مسئلہ پر اپنی رائے پیش کرے یا کوئی بھی قرار داد منظور کرلے مگر اس کے ساتھ ساتھ رائے عامہ کو بھی یہ مکمل طور پر حق حاصل ہے کہ وہ پارلیمان کے کسی بھی قدم کو غلط قرار دیتے ہوئے اپنی رائےکا اظہار کرے ۔ سینیٹ کی انتخابات کے التوا کے حوالے سے منظور کی گئی قرار داد بھی ایک ایسا ہی اقدام ہے کہ جس کو رائے عامہ کی تائید حاصل نہیں ہے ۔ جن وجوہات کو انتخابات کے التوا کا سبب قرار دیا گیا ہے ان کے حوالے سے کوئی بھی وقت معین نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت تک یہ مسائل قصہ پارینہ بن چکے ہونگے اس طرح تو انتخابات ایک غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیے جائیں گے اور یہ کسی بھی طرح وطن عزیز کے مفاد میں نہیں ہوگا ۔ یہ بات حتمی طور پر طے شدہ ہے کہ پاکستان میں مسائل کے بتدریج بڑھنے کی وجہ آمریت ہے اور ملک میں آگے بڑھنے کی صلاحیت ، معاشی مسائل سے نبرد آزما ہونے کی قوت جمہوری حکومت کے قیام سے ہی ممکن ہے ورنہ صرف جمہوریت کا لیبل لگا دینے سے قومی معیشت ، یکجہتی پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس کا مشاہدہ ہم 2018والے تجربے کی وجہ سے کھلی آنکھوں سے کر رہے ہیں اور اگر اب بھی جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم نہ کیا گیا اور کچھ عرصے میں ہی اس کے خلاف کوئی صورت حال پیدا کردی گئی تو جمہوریت کے ثمرات حاصل نہیں کئے جا سکیں گے کیوں کہ آمرانہ طرز حکومت غیر فطری ہوتا ہے اور جمہوریت اس صورت حال کی تلافی ۔ اور قیادت وہ ہوتی ہے جو صورت حال کا درست معنوں میں ادراک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو ۔ 1906میں کلکتہ میں انڈین نیشنل کانگریس کا اجلاس منعقد ہوا ۔ اس اجلاس میں حضرت قائد اعظم نے دادا بھائی نورو جی کے پرائیویٹ سیکریٹری کے طور پر شرکت بھی کی تھی ۔ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دادا بھائی نورو بھائی نے کہا تھا کہ " گزشتہ چند صدیوں میں ہندوستان کے لوگوں نے جو مصیبتیں اٹھائی ہیں وہ آج تلافی کا تقاضہ کرتی ہیں ۔ ہندوستان پر ڈیڑھ سو برس سے جو غیر فطری طرز حکومت مسلط ہے وہ برطانیہ کے لوگ خود اپنے ملک میں ایک دن بھی برداشت نہیں کرسکتے ۔ ہم مراعات کی بھیک نہیں مانگتے ' انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ اس وقت میں ان حقوق کے متعلق تفصیل سے بحث نہیں کرنا چاہتا جو برطانوی شہریوں کی حیثیت سے ہمیں حاصل ہیں ۔ میں اپنی قوم کے سارے مطالبات صرف ایک لفظ میں سمیٹ کر بیان کر دونگا اور یہ لفظ ہے خود مختاری یا سوراج ۔ ادھر بس خود مختاری یا سوراج کی جگہ جمہوریت لکھ دیا جائے اور برطانیہ کے لوگوں کی بجائے مہذب دنیا تو یہ ساری تقریر آج کے حالات کو بھی بیان کر رہی ہے ۔ اگر کہیں بھی انتخابات کے التوا کا کوئی منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے اور اس منصوبے پر عوامی رد عمل کو جاننے کیلئے سینیٹ سے یہ حالیہ قرار داد منظور کروائی گئی ہے تو اس سے سوائےحالات کے خراب ہونے کے اور کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ کیوں کہ ایسی کسی صورت حال کے وجود پہ جانے سے غیر نمائندہ حکومت کے تسلسل کا ایک تصور قائم ہوتا چلا جائے گا اور اس کی وجہ صرف یہ تصور کی جائے گی کہ طاقت ور حلقے کسی صورت بھی اقتدار سیاست دانوں کو سپرد کرنے کی بجائے اس پر اپنی گرفت برقرار رکھنا چاہتے ہیں ایسا کوئی تصور وطن عزیز کے اداروں کیلئے کسی طور مناسب نہیں ہوگا پھر اب عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے کاغذات نامزدگی کے حوالے سے مرحلہ اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے اگر ایسے موقع پر کسی بھی وجہ کو بنیاد بنا کر کوئی بھی ایسا قدم اٹھایا گیا جس سے انتخابات ملتوی ہو گئے تو ایسی صورت حال جنرل ضیاء کے انتخابات ملتوی کرنے کی مانند ہوگی اور پاکستان کے وفاق کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ ہم ویسے بھی دیکھ رہے ہیں کہ صوبوں میں انتخابات سے قبل ہی ایسی طاقتیں بہت تیزی سے اقدامات کر رہی ہیں جو کہ وفاق گریز خیالات کی علم بردار ہیں اگر سرے سے انتخابی عمل ہی سے گریز کا راستہ اختیار کر لیا گیا تو ان قوتوں کو ایک اور بیانیہ ميسر آ جائے گا کہ پاکستان میں کسی بھی سطح پر جمہوریت موجود نہیں ہے اور جب جمہوریت موجود ہی نہیں ہے تو آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کی پاسداری کا بھی سرے سے کوئی امکان نہیں رہ جاتا ہے ۔ دوسرا 2018 کے تجربہ کی بنیاد سوشل میڈیائی حکومت ہے ۔ جس میں ساری ترقی سارا بیانیہ اور موجودہ مقبولیت کا ڈھول بھی صرف سوشل میڈیا پر موجود ہے ۔ اس سوشل میڈیائی صورت حال سے نجات کیلئے بھی ضروری ہے کہ انتخابات کا عمل آٹھ فروری کو وقوع پذیر ہو جائے تا کہ قوم ترقی کا سفر سوشل میڈیا کی بجائے حقیقی معنوں میں شروع کرے اور مقبولیت کے ڈھول کا پول بھی کھل جائے ۔

تازہ ترین