• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کودکی میں ہم مائع کی طرح ہوتے ہیں، جس برتن میں ڈال دیا وہی ہیئت اختیار کر لی، جس ماحول میں رہے اسی میں ڈھل گئے، تبھی تو کچی عمروں میں لڑکیوں کی شادی کا رواج ڈالا گیا تھا کہ یہ ’آب و گِل‘ لے جائیں اور اپنی ضرورت کے مطابق اپنے چاک پر ڈھال لیں، جانوروں کے سدھانے میں بھی پہلے کچھ ماہ حد درجہ اہم ہوتے ہیں، بالخصوص کُتّوں کے، خوراک کی مقدار، سونے کی جگہ اور اوقات سے لے کر ٹائلٹ ٹریننگ تک سب کچھ اسی دوران سکھایا جاتا ہے، اور اگر نہ سکھایا جائے تو پالتو کتے بھی آوارہ کتوں کی طرح گنوارکے گنوار رہ جاتے ہیں۔

سیاست دانوں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہوا کرتا ہے، ان کے سیکھنے سکھانے کی ایک عمر ہوتی ہے، اسکے بعد ان سے کچھ سیکھنے اور خود کو بدلنے کی توقع رکھنا نادانی ہے ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں عمران خان المعروف بانی پی ٹی آئی نے اپنے اقتدار سے اڈیالا تک کے رولر کوسٹر سے کچھ سیکھا ہو گا؟ کیا انہوں نے یہ سیکھ لیا ہو گا کہ جب ایک بیل شدید غصے میں آپ کی طرف دوڑتا آ رہا ہو تو اسے کسی ماہر میٹا ڈور کی طرح تھکایا جاتا ہے، ٹکّر نہیں ماری جاتی، ٹکّر ماریں گے تو بیل کا سر نہیں پھٹے گا، آپ کی کھوپڑی دو نیم ہو جائے گی؟ کیا انہوں نے یہ سیکھ لیا ہو گا کہ سیاست میں دو قدم آگے بڑھنے کے بعد کبھی ایک قدم پیچھے بھی ہٹنا پڑتا ہے؟ اور کیا بانی صاحب نے یہ سیکھ لیا ہو گا کہ دوسرے سیاست دان اچھوت نہیں ہوتے، ان سے ہاتھ ملانا ہرگز ہرگز گناہ کے زمرے میں نہیں آتا، اور ان سے نفرت کے علاوہ بھی اپنی سیاست کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے؟ جو تھوڑی بہت خبر اڈیالا جیل سے آئی ہے پہلے وہ سُن لیں۔ جب نواز شریف پاکستان واپس آئے تو بانی صاحب کا ایک استقبالیہ فقرہ سننے میں آیا، جس میں وہ طنزاً اپنے سیاسی مخالف کو ’گوالمنڈی کا منڈیلا‘ کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں۔ یعنی وہی تضحیک آمیز اندازِ تخاطب، وہی ابتذال۔ زندگی کے سب سے بڑے ہنگام سے گزر کر یہ سبق سیکھا ہے عمران خان نے، یعنی جس آدمی سے عمران کا ہر حامی لیول پلیئنگ فیلڈ مانگتا پھرتا ہے، اسی کے ساتھ استہزا؟ (ویسے پتا نہیں مولانا فضل الرحمان قدس سرہ کو آج کل بانی صاحب کس نام سے یاد کرتے ہوں گے؟ )

انگریزی کے ایک موقر جریدے میں عمران خان کا ایک مضمون چھپا ہے جس کے مندرجات بتاتے ہیں کہ صاحب مضمون نے پچھلے ایک دو سال میں کیا سیکھا ہے۔ اپنے لفظوں میں فرماتے ہیں کہ امریکا اور فوج نے مل کر انہیں حکومت سے نکالا تھا، پاکستان کی فوج ان کے خلاف ہے، ان کی پارٹی توڑ دی گئی ہے، انہیں الیکشن نہیں لڑنے دیا جا رہا، وغیرہ وغیرہ۔ انہوں نے اس مضمون میں نواز شریف کا ذکر ’مجرم اور بھگوڑا‘ کہہ کر کیا ہے۔ جس وقت بانی صاحب کو ہر اہم شخص اور ادارے سے تعلق بہتر بنانے کی ضرورت ہے، عین اسی وقت وہ چُن چُن کر ہرکلیدی کردار پر تیر اندازی میں مصروف ہیں، مقتدرہ سے تعلقات ہم وار کرنے کی اشد ضرورت ہے جبکہ بانی صاحب عالمی سطح پر ادارہ کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہ رہے ہیں، امریکا سے چھیڑخانی سے اس وقت بانی صاحب کو کیا ملے گا، یہ سبق سیکھا ہے عمران خان نے ؟ بہرحال، اکانومسٹ کے مضمون سے یہ بھی سمجھ آتا ہے کہ صاحبِ مضمون مقتدرہ سے یکسر ناامید ہو چکا ہے، نہ تو فریقین میں کوئی بات چیت ہو رہی ہے اور نہ معافی تلافی کا دور دور تک کوئی امکان ہے۔ یہ نکتہ بھی واضع ہے کہ امریکا سے جو کردار ادا کرنے کی خواہش کی جا رہی تھی، امریکا اس پر تیار نہیں ، دوسرے لفظوں میں پی ٹی آئی کی متحرک امریکی تنظیم، وافر فنڈ، امریکی فیصلہ سازوں تک رسائی کی سہولت، کا نتیجہ صفر نکلا ہے۔پھر ایک دن اڈیالا جیل سے مختلف ذرائع نے اس خبر کی بھی تصدیق کی کہ بانی صاحب نے الیکشن کمیشن کے ارکان کو بالمشافہ دھمکی دی ہے کہ وہ انہیں نہیں چھوڑیں گے۔ حضرات، اب آپ راہ نمائی فرمائیے کہ اس سے کیا سمجھا جائے، بانی صاحب نے اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھاہے یا 71 سال کی عمر میں اولادِ آدم سیکھنے سکھانے کے عمل سے کوسوں دور آ چکی ہوتی ہے؟

یہ سچ ہے کہ عمران خان میں وہ بنیادی لچک نظر نہیں آ رہی جو معاملات کو سلجھانے کی پہلی شرط ہوا کرتی ہے، واضع برات تو درکنار وہ ابھی تک نو مئی سے فلرٹ کرتے نظر آتے ہیں، افسوس کہ اب انکے آس پاس کوئی ایسا آدمی بھی نہیں جو فریقین کیلئے یکساں معتبر ہو ۔ مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان اس کنویں میں گرنے والے پہلے سیاست دان نہیں ہیں، انکے سامنے مثالیں موجود ہیں، کس طرح منڈیر تک چڑھنا ہے اور کس طرح دوبارہ سیاسی پرندوں کی ڈار میں شامل ہونا ہے، مگر وہ اپنی ضد کی دلدل میں گردن تک دھنسے ہوئے ہیں ۔

بانی صاحب کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے اندیشہ ہے کہ ان کا پسِ زندان قیام اپنے سیاسی مخالف سے طویل تر ہو سکتا ہے، اور پھر بانی صاحب کو بین الاقوامی ضامن ملنا بھی اتنا آسان نہیں ہو گاکیوں کہ عالمی سطح پر انہیں نواز شریف کی طرح دوست میسر نہیں ۔ یہ بھی درست ہے کہ مقتدرہ بانی صاحب کو شاید ملک سے باہر بھیجنے سے بھی کترائے گی، عمران خان کی گارنٹی کون دے گا؟ ان کے بارے دوستوں دشمنوں کی متفقہ رائے یہ ہے کہ وہ باہر جا کر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں جس سے ریاست کے مفادات کو شدید زک پہنچ سکتی ہے ۔

مختصراً ، سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان اس عمر میں خود کو بدل سکتے ہیں؟جونؔ بھائی نے کسی ایسے ہی موقع پر فرمایا تھا ’’ٹھیک ہے خود کو ہم بدلتے ہیں...شکریہ مشورت کا چلتے ہیں۔‘‘

تازہ ترین