• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی انسان کو مسنگ بنانا، کچھ حوالوں سے قتل سے زیادہ بدتر جرم ہے۔ کوئی قتل ہوجائے تو کچھ عرصہ بعد اللّٰہ رب العالمین اس کے پیاروں کے دل کے زخم مندمل کردیتا ہے لیکن مسنگ ہوجانے والے کے لواحقین روز مرتے ہیں۔ وہ ایک تکلیف دہ انتظار سے گزرتے ہیں ۔ بے یقینی کی وجہ سے ان کا ذہنی عذاب ناقابل تصور ہوا کرتاہے ۔ اس عمل کے نتیجے میں بے تحاشہ سماجی مسائل بھی جنم لیتے ہیں ۔ مثلاًاگر کسی خاتون کا شوہر مرجائے تو کچھ عرصہ بعد وہ دوسری شادی کرسکتی ہے لیکن جن خواتین کے شوہر مسنگ ہیں وہ برسوں تک انتظار کے عذاب سے گزرتی ہیں ۔ بعض ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ کئی سال گزرنے کے بعدایک خاتون کو یقین ہوگیا کہ اس کا شوہر زندہ نہیں ہے اور مجبور ہوکر دوسری شادی کرلی لیکن کچھ عرصہ بعد اسکا شوہر اچانک نمودار ہوا اور علما تک کیلئے مسئلہ بن گیا کہ اب اسکے سابق شوہر کو شوہر تسلیم کیا جائے یا پھر اس کو جس سے بعد میں نکاح کیا ہے ۔ یوں ہر حوالے سے دیکھا جائے تو کسی انسان کو مسنگ بنانا بدترین ظلم ہے اور جلدازجلد اس مسئلے کا ریاست کو حل نکالنا چاہئے۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ مسنگ پرسنز کا مسئلہ صرف بلوچستان تک محدود ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ خیبر پختونخوا (بشمول سابقہ فاٹا) کے مسنگ پرسنز کی تعداد بلوچستان کے مسنگ پرسنز سے بہت زیادہ ہے لیکن چونکہ وہ مذہبی لوگ تھے یا ٹی ٹی پی سے متعلق تھے اس لئے انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں ان کیلئے آواز نہیں اٹھاتیں حالانکہ انسان انسان ہے اور سب کے بنیادی حقوق ایک جیسے ہیں ۔ اسی طرح کراچی میں بھی ایم کیوایم کے لوگ مسنگ رہے ہیں۔ یوں یہ صرف بلوچستان کا نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مسنگ پرسنز کے ایشو میں ریاست اور مسنگ پرسنز کیلئے آواز اٹھانے والے دونوں فریقوں کے موقف میں کچھ وزن بھی ہے اور کچھ حوالوں سے دونوں فریقوں کا موقف مبالغے یا زیادتی پر مبنی بھی ہے ۔ مثلاً ریاست مسنگ پرسنز کے وجود سے یکسر انکاری ہے ۔ وہ کہتی ہے کہ بہت سارے لوگ ایسے ہیں کہ افغانستان چلے گئے ہیں یا پھر مختلف معرکوں میں مرگئے ہیں لیکن ان لوگوں کو بھی مسنگ پرسنز کے کھاتے میں ڈالا جارہا ہے ۔ مثلاً کچھ عرصہ قبل جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق پر بلوچستان میں جس لڑکے نے خودکش حملہ کیا ، وہ گھر سے رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے مسنگ پرسنز میں شامل تھا۔ دوسری دلیل ریاست کے پاس یہ ہے کہ پاکستانی عدالتوں سے دہشت گردوں کو سزائیں نہیں ملتیں اور درجنوں انسانوں کے قاتلوں کو بھی ججز خوف کی وجہ سے یا مناسب پراسیکیوشن نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں اس لئے ایجنسیوں کو خود ان سے نمٹنا ہوتا ہے ۔ پھر چونکہ پاکستان میں خفیہ ایجنسیوں کے پاس گرفتاری کا قانونی اختیار نہیں ہے اس لئے وہ ان ملزموں کو سامنے نہیں لاسکتیں حالانکہ امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں ایجنسیوں کے پاس گرفتاری کا قانونی اختیار ہے۔ ان حالات میں اگر وہ کسی مسنگ پرسن کو عدالت میں پیش کرتی ہیں تو خود قانون کے شکنجے میں آتی ہیں جبکہ دوسری طرف انہیں مسنگ پرسن کے مجرم اور خطرناک ہونے کا یقین ہوتا ہے اس لئے اسے سامنے بھی نہیں لاسکتے ۔ اب مسنگ پرسنز کی موجودگی سے ریاست کا یکسر انکار جھوٹ ہے تو دوسری طرف وہ اپنی جو مجبوری بیان کرتی ہے اس میں کچھ وزن بھی ہے۔

مسنگ پرسنز کیلئے آواز اٹھانے والی تنظیمیں اور افراد بنیادی طور پر عظیم خدمت سرانجام دے رہے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ ملک بھر میں سینکڑوں افراد مسنگ ہیں ۔ ان کا یہ موقف بالکل درست ہے کہ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے لیکن بدقسمتی سے ان تنظیموں نے جو بعض نعرے اپنالئے ہیں ، اس کی وجہ سے ریاست انہیں مظلوم کی بجائے حریف سمجھنے لگتی ہے ۔ اسی طرح یہ تنظیمیں صرف مسنگ پرسنز کی بات تو کرتی ہیں لیکن بلوچ عسکریت پسندوں کی مذمت نہیں کرتیں جن کی وجہ سے ریاست کو یہ گمان ہوتا ہے کہ ان کی مہم بھی عسکریت پسندوں کے مشن کا تسلسل ہے۔

مذکورہ تناظر میں مسنگ پرسنز کے مسئلے کے حل کیلئے چند تجاویز گوش گزار کررہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اگر ان پر عمل کیا گیا تو یہ مسئلہ بڑی حد تک حل ہوسکتا ہے ۔ میرے نزدیک مسنگ پرسنز کا مسئلہ کبھی مرکزی سطح پر حل نہیں ہوسکتا کیونکہ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو وزیرستان یا تربت کے زمینی حقائق کا کوئی علم نہیں ہوتا ۔ اس لئے ضروری ہے کہ بلوچستان ، پختونخوا اور کراچی میں ضلعی سطح پر کمیشن بنائے جائیں ۔ ڈپٹی کمشنر اس کا سربراہ ہو ۔ تمام ایجنسیوں کے نمائندے اس کے ممبر ہوں ۔ مسنگ پرسنز کیلئے آواز اٹھانے والی تنظیموں کے نمائندے بھی اس کے ممبر ہوں ۔ اس کا ہر ہفتے اجلاس منعقد ہو۔ باری باری ہر اجلاس میں دس دس پندرہ پندرہ افراد کے لواحقین بلا کر ان افراد کے بارے میں معلومات ان کے لواحقین کے ساتھ شیئر کی جائیں ۔ اگر کوئی زندہ ہے اور ایجنسیوں کے پاس ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے اور اگر خدانخواستہ کوئی مرگیا ہے یا افغانستان وغیرہ چلاگیا ہے تو اس کی تفصیل لواحقین کو بتائی جائے۔

نگران حکومت ایک آرڈیننس لاکر ایجنسیوں کو ایک وقت کیلئےیعنی ون ٹائم معافی دے تاکہ وہ اپنی تحویل میں موجود لوگوں کو بلاخوف و خطر پیش کرسکیں ۔ اگر ضروری ہو تو قانون سازی کرکے ایجنسیوں کو پولیس کی طرح گرفتاری کا اختیار دیا جائے لیکن ساتھ ہی ان کو پولیس کی طرح پابند کیا جائے کہ وہ چوبیس گھنٹے کے اندر گرفتار فرد کو عدالت میں پیش کریں گی ۔ حکومت کے ان اقدامات کے جواب میں مسنگ پرسنز کیلئے آواز اٹھانے والی تنظیمیں شدت پسنداور علیحدگی پسند تنظیموں کی مذمت کریں اور مسئلے کے حل کیلئے ریاست کے ساتھ تعاون کریں۔

مرکزی سطح پر مسنگ پرسن کا جو کمیشن قائم ہے اس کی سربراہی سے جسٹس (ر) جاوید اقبال جیسے متنازع شخص کو ہٹایا جائے ۔ انکی بجائے کسی ایسی شخصیت کو اس کا سربراہ بنایا جائے جس پر مسنگ پرسنز کے لواحقین کو بھی اعتماد ہو۔ یہ کمیشن خود کیسز کی جانکاری کی بجائے ضلعوں کی سطح پر قائم کمیٹیوں کی نگرانی کرے اور ماہانہ بنیادوں پر اپنی رپورٹ پیش کیا کرے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین