انتخابات ہمیشہ ایک خاص قسم کی فضا پیدا کر دیا کرتے ہیں۔ ایک ایسی جذباتی فضا جو دیکھتے ہی دیکھتے پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ۔ہر ریستوران میں یار لوگ میزپر مکے مار مار کے اپنی اپنی پارٹی کی کامیابی کا اعلان کرتے ہیں۔ زیادہ جوش میں آ جائیں تو شرطیں لگانا شروع ہو جاتے ہیں۔ اپنے اپنے لیڈر کے بڑے بڑے جلسوں کا پورے جوش و خروش کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔ لیکن موجودہ انتخابات ایک ناگفتہ بہ صورتحال کا شکار ہیں۔ کسی انتخابی کیمپ میں ہیجانی کیفیت کا سراغ نہیں ملتا۔ انتخابات ہوں گے یا مزید تعطل کا شکار ہو جائیں گے؟ ن لیگ ،جو انتخابی میدان کی پرانی کھلاڑی ہے، بھی ابھی تک میاں شہباز شریف کے ایک مصرع کی تکرار تک محدود ہے۔ وہ جب الیکشن کا ذکر کرتے ہیں تو فقط ایک ہی بات کی تکرار کرتے ہیں ’’ہم میاں صاحب کو چوتھی بار وزیر اعظم بنائیں گے‘‘۔ آپ انہیں پانچویں بار بھی وزیراعظم بنائیں ،کسے اعتراض ہے لیکن اس وقت اپنا منشور بتایئے تاکہ لوگ اس کے بارے بحث مباحثہ کریں، پارٹی کے کنونشن کروائیں کہ کارکنوں کو نئی لائن مل سکے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے اکلوتے وارث بلاول بھٹو زرداری نے اس وقت پارٹی کا سارا بار ِگراں تن تنہا اپنے کندھوں پر سہار رکھا ہے۔ انہوں نے اس عرصے میں اردو زبان پر بھی خاصا عبور حاصل کرلیا ہے۔ اب وہ پہلے سے بہتر اردو بولتے ہیں لیکن وہ قوم سے جو وعدے کر رہے ہیں کیا وہ انہیں ایفا بھی کرسکیں گے؟یہ بڑی بات ہوگی اگر وہ غریبوں کو مفت بجلی فراہم کریں گے۔ غریبوں کوتیس لاکھ مکان مفت بنا کر دیںگے۔ مختلف کارڈز مثلاً کسان کارڈ، مزدورکارڈ، ہیلتھ کارڈاور دیگر کارڈ بھی جاری کریں گے۔ ان کا منشور قابل عمل نہیں ہے۔ اس حقیقت کا انہیں ادراک جلد ہی ہو جائے گا۔ پاکستان کی معیشت پہلے ہی آئی ایم ایف کی گروی ہے۔ اس میں اور نئے نئے ٹیکسوں کا بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں ہے۔ 8 کے بعد 9 فروری نے بھی آنا ہے اور 9 فروری نئے تقاضوں، نئی ضروریات اور نئی معیشت کا دور ہوگا تو پھر آپ کو قدم قدم پر سوچنا پڑے گا کہ اقتدار کی خواہش تو ایک حسین خواب ہے مگر اس کا وجود کانٹوں سے پُر ہے۔
اب آیئے ذرا پی ٹی آئی کی جانب جو منشور جیسے تکلفات سے دور پرے اپنی موجودہ حالت پر ماتم کناں ہے۔ ان کے وکلا ہمہ وقت پارٹی قیادت کے دکھوں کا ٹوکرا اپنے سر پر اٹھائے ایک عدالت سے دوسری عدالت تک ’’ہائے عمران، ہائے عمران‘‘ کے نعرے لگاتے پھرتے ہیں۔ عمران خان کو نہ تو پارٹی کنونشن کرانے یا عوام کو منشور دینے کی ضرورت ہے کہ ان کی تحریک اڈیالہ میں چل رہی ہے۔ عوام عمران خان کو چاہتے ہیں،عمران خان کیا چاہتا ہے؟اس بات سے انہیں کوئی غرض نہیں۔ عمران کو دنیا اس وجہ سے یاد نہیں رکھے گی کہ وہ وزیراعظم بنا، یا اس نے جیل کاٹی بلکہ اس کو دنیا اس کے ہسپتالوں یا اس کی بنائی ہوئی کسی دانش گاہ سے اکتساب علم کرنے والے اسے عمر بھر یاد رکھیں گے۔ اس شاہراہ حیات کو خیر باد کہتے ہوئے عمران خان نے سیاست کی تنگ و تیرہ پگڈنڈی کا انتخاب کرلیا، جس کے عملاً معانی ہیں گالی دو اور گالی لو۔ عبدالستار ایدھی بہت باعزت بزرگ تھے۔ انہوں نے عوام کی خدمت کا راستہ اپنایا اور ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے۔ کون سا ایسا سیاست دان ہے ،جس کو بعد از مرگ بھی اتنی عزت مل پائی ہو ۔چلیے ہم ایک بار مجوزہ انتخابات کے ہست و بود کی جانب پلٹتے ہیں۔ انتخابات کا ہونا وقت کا تقاضا بھی ہے اور عوام کی ضرورت بھی۔ اگر موجودہ جمہوریت باقاعدگی سے اپنا کردار مثبت انداز میں ادا کرتی رہے تو اس کی پرفارمنس میں بہتری آ سکتی ہے۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ انتخابی عمل رک جائے اور اسکے منفی نتائج آئیں۔ عوام انتخابات کیلئے سو فیصد تیار ہیں۔ الیکشن کمیشن 8 فروری کا منتظر ہے۔ بااثر قومی ادارے تیار ہیں تو اندریں حالات الیکشن بارے چہ میگوئیاں ،چہ معانی دارد؟
سیاسی جماعتوں کے اندر ہر حال میں الیکشن کروائے جائیں۔ اب تک انٹرا پارٹی الیکشن ایک بھونڈے مذاق کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ پارٹی کی ہر پوزیشن پر’’بلامقابلہ‘‘ انتخاب کا سلسلہ جاری ہے۔ کوئی جمہوری پارٹی نامزدگیوں کے سہارے پر نہیں چلائی جا سکتی۔ جو رہنما خود اپنی پارٹی کے اندر الیکشن لڑنے سے گریز پا ہوں ،وہ ایک جمہوری نظام کو کیسے چلا سکتے ہیں؟ الیکشن کے لئے انتخابی فضا صرف جبھی ممکن ہے کہ پارٹیوں کے اندر الیکشن کرائے جائیں۔