• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نہ جانے کیوں ہم پاکستانی بھارت ، بنگلہ دیش اور نیپال جیسے ممالک جو ہمارے پڑوسی بھی ہیں اور ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوئے بلکہ بنگلہ دیش تو ہم سے ہی آزاد ہوا تھا ان ممالک کی تیز رفتارترقی دیکھ کر کچھ پریشان سے ہوجاتے ہیں ،اس وقت بھی میں کافی پریشان بیٹھا تھا کیونکہ میرے سامنے وہ رپورٹس موجود تھیں جس میں جاپان کو ورک فورس بھجوانے کے لیے وہ تیاریاں شامل تھیں جو یہ ممالک کررہے تھے ، میرے لیے صرف یہ پریشان کن نہیں تھا کہ یہ ممالک کس قدر تیزی سے اپنی ورک فورس کو جاپان بھجوانے کے لیے تیار کررہے ہیں بلکہ زیادہ پریشانی رپورٹ کا وہ حصہ دیکھ کر تھی جس میں پاکستان کے حوالے سے معلومات تھیں کہ پاکستان کو جاپان بھجوانے کے لیے سات لاکھ ورک فورس میں سے صرف آٹے میں نمک جتنا حصہ ہی مل سکے گا جس کی وجہ ہماری انتہائی سست رفتار تیاریاں ہیں ،افسوس اس بات کا بھی تھا کہ ورک فورس جاپان بھجوانے کے لیے جن کمپنیوں نے لائسنس حاصل کیے ہیں وہ تمام کمپنیاں، ان ارب پتی کاروباری افراد کی ہیں جو پاکستان میں بہت معرو ف ہیں اور جاپان بھجوانے کے لیے پاکستان کے غریب افراد سے لاکھوں روپے بطور فیس بھی وصول کریں گے لیکن ان نفع خوروں نے اپنے تعلقات کی بناپر ورک فورس جاپان بھجوانے کا لائسنس لینے کے بعد اس منصوبے پر کوئی سرمایہ کاری نہیں کی ہے جس کے سبب پاکستان اس منصوبے میں بہت پیچھے رہ گیا ہے ،حقیقت یہ ہے کہ جاپان بھجوانے کے لیے کسی بھی لیبر کو کم از کم جاپان کی بنیادی زبان کا ٹیسٹ این فائیو پاس کرنالازمی ہوتا ہے یہ ٹیسٹ جے ایل پی ٹی بورڈ سے کیا جانا ضروری ہے جس کے امتحان پاکستان میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں منعقد ہوتے ہیں ، لیکن افسوس کہ ان پچیس سے زائد لائسنس یافتہ اداروں میںسے شاید چند ایک ہی ادارے ایسے ہوں جو جاپان جانے کے خواہشمند افراد کو جاپانی زبان کی تعلیم فراہم کررہے ہوں ،اس وقت جاپان کے جن شعبوں میں کام کرنے کے لیے ملازمت کے مواقع موجود ہیں ان میں تربیت ، اسکلڈ ورکرز اور انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں جاپانی زبانی کی بنیادی تربیت یعنی این فائیو اور بعض اہم ملازمتوں کے لیے این فور امتحان کا پاس کرنا ضروری ہے ، تو آیئے ہم کو کو بتاتے ہیں کہ ہمارے پڑوسی ممالک کس تیزی سے جاپانی زبان سیکھ کرعنقریب جاپان میں اپنے قدم جما لیں گے اور ہمارے پاکستانی بھاری رقم دیکر غیر قانونی طریقے سے ہی جاپان آنے کو ترجیح دیتے رہیں گے ، رپورٹ کے مطابق 2023ء میں بھارت میں جے ایل پی ٹی بورڈ سے 33568افراد نے N4کا امتحان پاس کیا ہے اب یہ افراد باآسانی ملازمت کے ویزےپر جاپان آنا شروع ہوجائیں گے ،انڈونیشیاکے 27586افراد نے JLPTبورڈ سے N4 لیول کا جاپانی زبان کا امتحان پاس کرلیا ہے ،سری لنکا کے 19463افراد نےگزشتہ برس N4 کا امتحان پاس کرلیا ہے اب یہ تمام افراد جاپان میں ملازمت کے حصول کے اہل ہوچکے ہیں ،سری لنکا کے بعد نیپال میں بھی جاپانی زبان سیکھنے کا سلسلہ تیزی سے شروع ہوچکاہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برس نیپال میں 7646افراد نے N4کا امتحان پاس کرلیا ہے جبکہ بنگلہ دیش میں 7423کارکنوں نے جاپانی زبان کا N4 امتحان پاس کرلیاہے۔ اب بات کریں پاکستان کی تو پاکستان میں گزشتہ برس صرف 835افراد ہی N4لیول کا امتحان پاس کرسکے ، اس بات سے قارئین اندازہ لگا لیں کہ پاکستان کس قدر پیچھے رہ گیا ہے ، ایسا نہیں ہے کہ پاکستانی جاپان ملازمت کے لیے آنا نہیں چاہتے ہر رو ز درجنوں افراد جاپان میں ورکنگ ویزوں کے معلومات کے لیے نہ صرف مجھ سے بلکہ جاپان میں مقیم ہر پاکستانی سے رابطہ کرتے ہونگے لیکن جیسے ہی جاپانی زبان سیکھنے کی بات کی جاتی ہے سب غائب ہوجاتے ہیں ،اس حوالے سے جاپان میں پاکستانی سفارتخانے کی کارکردگی بھی بہتر ہے جس میں سفیر پاکستان رضا بشیر تارڑ کی ذاتی کوششوں اور ان کی ہدایات پر کمیونٹی ویلفیئر بھی اپنی پوری محنت کررہے ہیں لیکن پاکستان میں جاپانی زبان کے ادارے قائم کرنا اور ان میں جاپانی سیکھنا یہ دونوں ذمہ داریاں سرمایہ کاروں اور عوام کی ہیں جن کی اس شعبے میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے ، اس وقت پاکستان میں ایک معروف ادارہ بھی ورک فورس جاپان بھجوانے کے لیے کوشاں ہے لیکن جب تک پاکستان کے ہر شہر میں بڑی تعداد میں جاپانی زبان سکھانے کے ادارے نہیں کھلیں گے پاکستانیوں کی بڑی تعداد کا ورک ویزے پر جاپان آنا مشکل ہی رہے گا لہٰذاجاپان آنے کے خواہشمند افراد کو ایک ہی مشورہ ہے... جاپان آنا ہے تو جاپانی سیکھو ۔

تازہ ترین