• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بخدمت جناب تھانیدار صاحب! میں آنے والے الیکشن میں ایم این اے کی سیٹ کا امیدوار ہوں اور مسلسل زیادتیوں کا شکار ہوں۔آپ کی فوری اور بھرپور مدد درکار ہے۔ جناب عالی! میں قوم کے وسیع تر مفاد میں الیکشن لڑ رہا ہوں۔ ہر بڑی پارٹی نے مجھے ٹکٹ کی پیشکش کی لیکن میں نے ٹھکرا دی کیونکہ ضمیر نہیں مانتا تھا۔میں نے ہمیشہ ضمیر کی سنی ہے اور ضمیر کے مطابق ہی زندگی گزاری ہے۔ میں نے اپنی اہلیہ سے مشورہ کیا تو اُس نے بھی کہا کہ آپ ضمیر کی آواز پر لبیک کہیں ۔ تھانیدا رصاحب! میں الیکشن میں کھڑا تو ہوگیا ہوں لیکن میرے مخالفین کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں۔ اُنہیں یقین ہوگیا ہے کہ ٹونی بڈاوا جیتے ہی جیتے۔ یاد دہانی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ میں نے پچھلے الیکشن میں بھی حصہ لیا تھا ۔لیکن مخالفین کی طرف سے ایسی گھنائونی دھاندلی کی گئی کہ میں بتا نہیں سکتا۔پہلے تو انہوںنے الیکشن کمیشن سے ساز باز کرکے مجھے مولی کا نشان الاٹ کروا دیا۔ میں جس کو بھی کہتا کہ مولی پر مہر لگانا وہ آگے سے حیرت کا اظہار کرتا کہ مولی پر تو نمک لگایا جاتاہے۔الیکشن والے دن میں نے اپنے کیمپ میں مولی والے پراٹھوں کی دعوت بھی رکھی ۔ لیکن جیسا کہ میں نے بتایا مخالفین مضبوط تھے، انہوں نے کسی کے کان میں ڈال دیا کہ بڈاوے نے پراٹھوں میں موم بتیاں کاٹ کر ڈالی ہیں۔ یہ سنتے ہی میرا کیمپ خالی ہوگیا اورووٹر کی کثیر تعداد مجھ سے بددل ہوگئی۔تھانیدار صاحب صرف یہی نہیں بلکہ مخالفین نے پتا نہیں کون سا حربہ استعمال کیاکہ الیکشن کے بعد بیلٹ باکس کھولے گئے تو70 ہزار کے حلقے میں سے میرے 69984ووٹ نہ صرف کم نکلے بلکہ ووٹ کی ہر پرچی پر مہر کی بجائے گالیاں لکھی ہوئی پائی گئیں۔میں نے پھر بھی صبر کیااور سب کچھ وقت پر چھوڑ دیا۔ آج پھر میں الیکشن میں کھڑا ہوا ہوں۔ پچھلے الیکشن سے آج تک میں نے اپنے حلقے میں بھرپور کام کیے ہیں۔میں نے خواتین کے دوپٹے پیکو کروائے، پانی نہ آنے کی صورت میں لوگوں کی بالٹیاں بھربھر کے لایا،حلقے والوں کی خراب موٹریں مرمت کروائیں اور غریب لوگوں کے لیے بجلی کی کنڈیاں مفت تقسیم کیں۔میری مقبولیت میں دن دُگنار ات 12 بجے کے بعد چگنا اضافہ ہوتا چلا گیا۔آپ کو تو پتا ہے یہ علاقہ جرائم پیشہ لوگوں کا گڑھ ہے ۔ نوجوانوں کی اکثریت چوری ڈکیتی اور موبائل چھیننے میں ملوث رہتی ہے اسی لیے آئے دن چھاپے پڑتے رہتے ہیں۔ میں نے ہی نوجوانوں کو اکٹھا کرکے سمجھایا کہ خدا کے لیے اپنی زندگیاں خطرے میں کیوں ڈالتے ہو، موبائل مت چھینا کرو، اس سے لوکیشن ٹریس ہوجاتی ہے۔صرف کیش پر ہاتھ ڈالا کرو۔

تھانیدار صاحب!چونکہ میرے مخالفین نہیں چاہتے کہ میں یہ الیکشن جیتوں لہٰذا انہوں نے حسب سابق الیکشن کمیشن کو ساتھ ملا کر مجھے انتخابی نشان ’لومڑ‘ دلوا دیاہے۔بتائیں بھلا میں کیسے کسی کو کہوں کہ ’لومڑ کو ووٹ دو‘۔اوپر سے لومڑ کی شکل کا زیادہ تر لوگوں کو پتا ہی نہیں وہ پہچانیں گے کیسے؟ میری اہلیہ نے اس سلسلے میں ایک مشورہ دیا تھا لیکن وہ نہایت نامناسب ہے، کہتی ہے آپ ووٹر سے کہیں کہ لسٹ میںجو شکل ٹونی بڈاوے سے ملتی جلتی نظر آئے اُس پر مہر لگا دیں۔جناب عالی! چلو نشان والی بات بھی میں ہضم کرلیتا لیکن میرے مخالفین نے ایک اور حرکت کردی ہے۔ وہ میرے ووٹرز کو دو گھی کے ڈبے، آٹے کا ایک تھیلا اور پانچ ہزار روپے دے کر خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اور تو اور رات کو میں گھر گیا تو میرے گھر بھی یہ راشن اور کیش آچکا تھا۔میں دہل گیا۔ فوراً اہلیہ کا ہاتھ اپنے سر پر رکھ کر پوچھا’شکیلہ کیا تم بھی میرے مخالفین کو ووٹ ڈالو گی‘۔ شکیلہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے، بھرائی ہوئی آواز میں بولی’بڈاوے! تیرا اندازہ سو فیصد درست ہے‘۔میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔گویا میرے اپنے بھی بک گئے تھے۔ میرے مخالفین نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جگہ جگہ لوگوں کو بتاتے پھر رہے ہیں کہ ٹونی بڈاوا فراڈیا اور وارداتیا ہے، منشیات فروخت کرتا ہے اور پلاٹوں پر قبضے کرواتا ہے۔میں حیران ہوں کہ اُنہیں یہ ساری باتیں پتا کیسے چلیں؟یقیناً اندر سے مخبری ہوئی ہے۔

تھانیدار صاحب! آپ جانتے ہیں میں نے ہمیشہ ضمیر کی آواز پر آپ کے لیے بروقت منتھلی پہنچائی ہے۔ اگر آپ میرے ساتھ پولیس موبائل بھیج کر میرے مخالفین کوہراساں کردیں تو میں آپ کا مشکور رہوں گا۔میں چاہتا ہوں پورے حلقے والوں پر واضح ہوجائے کہ اُن کے تھانے وغیرہ کے کام صرف ٹونی بڈاوا ہی کروا سکتا ہے۔ اگر آپ تھوڑا سا تعاون فرمائیں تو اہل علاقہ کے بارہ ڈکیتوں کو بھی حوالات سے باہر نکلوائیں، یہ ڈکیت نہیں شریف انسان ہیں۔صرف حالات سے مجبور ہوکر دس سال سے ڈکیتیاں کر رہے ہیں۔میرا وعدہ ہے کہ میں ان کو ڈکیتیوں سے ہٹا کر وائٹ کالر کرائم کی طرف لگائوں گا تاکہ یہ بھی عزت کی روٹی کھا سکیں۔جناب عالی! اب کی بار میں نے الیکشن ہر حال میں جیتنا ہے چاہے اس کے لیے مجھے چین ہی کیوںنہ جانا پڑے۔میری صرف اتنی سی درخواست ہے کہ یا میرے مخالفین کو حوالات میں بند کریں یا میرے حامیوں کو حوالات سے نکالیں۔ بات سمجھنے کی کوشش کریں ۔مخالفین اکیلا دیکھ کر مجھے کمزور سمجھ رہے ہیں۔یہ میرے ساتھ ہوں گے تو میرے مخالفین کو مجھ پر وار کرنے کا کوئی موقع نہیں ملے گا۔میں ایم این اے بنتے ہی آپ کے وارے نیارے کروا دوں گا۔ شائد آپ کے ذہن میں ہو کہ ایم این اے بن کر میں اوقات سے باہر ہوجائوں گا، بخدا بالکل نہیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ میں نے آج تک وہی کیا جو ضمیر نے کہا، تو یہ کیسے ہوسکتاہے کہ ایم این اے بننے کے بعد میں ضمیر کی نہ سنوں…ان شاء اللہ آپ کا اے ایس آئی ضمیر جو کہے گا میں اُس پر عمل کروں گا۔

فقط آپ کا اپنا ۔ٹونی بڈاوا۔

تازہ ترین