• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خبر یوں ہے کہ گریٹر مانچسٹر کے علاقے بری میں برقع پہنے ایک شخص نے جیولری کی دکان لوٹ لی جبکہ برقع کے نیچے اس نے شاٹ گن بھی چھپائی ہوئی تھی، گریٹر مانچسٹر میں مسلم کمیونٹی کی بڑی تعداد آباد ہے اور خواتین میں روایتی برقع پہننے کا رواج عام ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ فرانس کی کابینہ نے اسلامی حجاب پر پابندی کے بل کی منظوری دی ہے۔ فرانسیسی حکومت نے کہا ہے کہ خواتین کے حقوق کے دفاع اور مخصوص طریقہ کار کے خاتمے کیلئے بل کی منظوری ضروری ہے۔ یاد رہے کہ فرانس میں حجاب پہننے والی خواتین کو ایک سو پچاس یورو جرمانہ کیا جاتا ہے جبکہ پردہ کرنے والی کو پندرہ سو یورو اور ایک سال کی قید دی جائے گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بلجیم کی حکومت نے برقع پر پابندی کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے۔ برسلز کے میئر نے ایک بار پھر احتجاجی مظاہروں کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتجاجی مظاہرے برسلز کے مکینوں کیلئے ایک بڑا مسئلہ ہوگا اور ان کے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوں گے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ بلجیم کی پارلیمنٹ میں ارکان کی اکثریت نے مسلم خواتین کے برقع پہننے پر پابندی کی حمایت کی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ آسٹریلیا کے ایک اپوزیشن سینٹ کے رکن سینٹر کوری برنارڈی نے برقع کو آسٹریلیا کے مزاج اور کلچر کے خلاف قرار دیتے ہوئے اسے عورت پر مرد کے ظلم کی نشانی کہاہے۔ کوری برنارڈی نے اپنے ایک مضمون میں کہا ہے کہ جب موٹر سائیکل سوار اپنی شناخت کروانے کیلئےاپنا ہیلمٹ ہٹاتے ہیں لیکن ایک برقع پوش خاتون مذہبی اصولوں کے تحت نقاب ہٹانے سے انکار کرتی ہے کہ مسلم عورت کو ایسا کرنے سے مذہب روکتا ہے۔ انہوں نے مضمون میں لکھا ہے کہ اگر میں سر تاپا سیاہ خیمہ نما لباس میں آجائوں تو مجھے کوئی پہچان نہیں سکے گا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ آسٹریلیا میں برقع پر مکمل پابندی عائد کردینی چاہیے اور آسٹریلیا میں آباد ہونے والی مسلم خواتین کو چاہیے کہ وہ آسٹریلیا کی اقدار اپنائیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ بلجیم میں حکام ایک ویڈیو کا تجزیہ کررہے ہیں جس میں بلجیم اور دوسرے یورپی ملکوں کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر انہوں نے پورے چہرے کے نقاب یا برقع پر پابندی لگائی تو ان پر حملے کیے جائیں گے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بلجیم کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں نے گزشتہ ہفتے ایک بل منظور کیا تھا جس میں برقع اور نقاب پر پابندی کیلئے قانون سازی کی منظوری دی گئی تھی، اس کے ردعمل میں مسلمانوں کی طرف سے انٹر نیٹ پر انگریزی زبان میں ایک ویڈیو پیغام جاری کیا گیا ، جس میں آواز کے ساتھ یہ پیغام یا دھمکی بھی دی گئی ہے جو تحریری شکل میں بھی ہے کہ اگر تم نے برقع، حجاب یا نقاب پر پابندی لگائی تو تم اس کے انتہائی بھیانک نتائج اپنے اپنے ملکوں میں دیکھو گے، ویڈیو میںخواتین کو بھی دیکھا جاسکتا ہے، جس پر آواز اوور لیپ ہوتی ہے کہ برقع، نقاب یا حجاب پہننا ہر مسلمان خاتون کا حق ہے اور حکومت کو اس فیصلے کی قیمت چکانا ہوگی۔ پیغام بھیجنے والے نے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی۔ یاد رہے کہ یورپ میں پردہ کرنے والی خواتین کبھی کبھار ہی نظر آتی تھیں لیکن کچھ برسوں سے ان کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے، ایک سروے کے مطابق فرانس میں ایسی خواتین کی تعداد ہزاروں میں اور بلجیم میں بھی سینکڑوں میں ہے۔ فرانس میں مردوں اور خواتین کے ساتھ زور، زبردستی کرنے والوں کے خلاف بھی قانون وضع کیا گیا ہے۔ آئندہ سے فرانس میں کسی مسلم خاتون کو برقع پہننے کیلئے زور، زبردستی کرنے والے یا والی کو جیل بھیج دیا جائے گا اور بھاری جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔ کوئی خاتون اگر اپنی مرضی سے برقع یا نقاب پہنے تو اس کو150یورو جرمانہ عائد کیا جائے گا جبکہ دوسروں کو (ماں، بہن، بیٹی، بیوی، بھابھی وغیرہ) برقع پہننے کیلئےجبر کرنے والوں کو فرانسیسی صدر سرکوزی20ہزار ڈالر جرمانہ اور ایک سال جیل میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ مغربی ممالک اور امریکہ میں پردہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ بہت کم اہل علم ہیں جنہوں نے اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی ہے۔ اگر علامہ اقبال حیات ہوتے تو شاید ’’شکوہ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ کی طرح ’’پردہ‘‘ اور ’’جواب پردہ‘‘ بھی لکھ ڈالتے،ضرورت ہے مشکلات کا حل تلاش کرنے کی۔ مشکلات کا مطلب یہ ہے کہ بعض اوقات ایک شرعی حکم پر عمل کرنا بہت دشوار ہوجاتا ہے، اس وقت کوئی ایسی راہ تلاش کرنا پڑتی ہے کہ اس حکم کا پورا پورا احترام باقی رکھتے ہوئے یا اس پر زیادہ سے زیادہ عمل کرتے ہوئے جو خامیاں رہ جائیں ان کو دور کیا جاسکے اور تعمیل میںجو خلا رہ جائے اس کو پر کیا جاسکے۔ موجودہ زمانے میں مغربی ممالک کے معاشرے میں پردہ نسواں کا مسئلہ اس قسم کی پیچیدگی کا شکار ہے یا دوچار ہے۔ یورپ میں پہلے سے آباد مسلمانوں کے علاوہ مختلف ممالک سے لگ بھگ ایک کروڑ مسلمان یورپ کو اپنا گھر بناچکے ہیں۔ یورپ میں سب سے زیادہ مسلمان فرانس میں ہیں جہاں ان کی تعداد مجموعی آبادی کا سات فیصد ہے، یہی وجہ ہے کہ مغرب میں رہنے والے مسلمان ایک ایسی درمیانی راہ کی تلاش میں ہیں جہاں اسلامی اقدار اور مغربی افکار اور گلوبلائزیشن کی جہتوں کو اکٹھا کیا جاسکے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ لوگ اپنے پرانے تعصبات سے چھٹکارا پانے میں بہت کاہل ہوتے ہیں اور ایسے خیالات و تصورات کو ماننے سے کتراتے ہیں جو انہیں آرام دہ نہیں لگتے، علاوہ ازیں مسلمانوں کے بعض سماجی طبقات میں اپنے متوازی معاشرے قائم کرنے کا رجحان بھی فروغ پاتا ہے۔ اس ساری بحث کا نچوڑ میرے حساب سے یہ ہے کہ یورپی معاشرے کی ثقافت اور اقدار کو مکمل طور پر اختیار کرنے یا اپنے عقیدے اور آبائی ملک کے رسم رواج کے مقابلے میں انہیں یکسر مسترد کرنے کے بجائے دونوں انتہائوں کے درمیان ایک راہ ہر وقت ہر جگہ موجود ہوتی ہے، جسے ’’درمیانی راستہ‘‘ کہتے ہیں۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ ضرورت سے زیادہ عدم یکسانیت یا یکسانیت دونوں ہی نقصان دہ ہوتے ہیں۔

تازہ ترین