• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لالی ووڈ کیلئے مایوس کُن، بالی ووڈ کیلئے کامیاب ترین سال، بالی ووڈ نے روایات برقرار رکھیں

فلم بینوں کو سینما گھروں کی جانب راغب کرنے کے لیے گزشتہ برس غیر روایتی اور متنوّع موضوعات پر مبنی مقامی فلمز کے علاوہ مختلف زبانوں پر مشتمل درجنوں غیر مُلکی موویز بھی پردۂ سیمیں کی زینت بنیں، جن میں سے کئی ایک نے باکس آفس پر شان دار کام یابی حاصل کی۔ سال 2022ء مُلکی فلمی صنعت (لالی ووڈ) کے لیے ایک غیر معمولی فلم ’’دی لیجینڈ آف مولا جٹ‘‘ کے باعث کافی بہتر ثابت ہوا تھا کہ فلم نے باکس آفس پرشان دار کام یابی حاصل کر کے ناراض فلم بینوں کو سینما گھروں میں واپس لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 

گرچہ سال2023ء میں بھی ’’دی لیجینڈ آف مولا جٹ‘‘ سینما اسکرین سے نہیں اُتری، لیکن مجموعی طور پر یہ سال اردو فلموں کے لیے کچھ اچھا ثابت نہ ہوا۔ ابتدائی چند ماہ میں تو کوئی فلم ریلیز ہی نہیں ہوئی۔ بعدازاں ،اپریل، مئی اور جون کے مہینوں میں بارہ سے زائد اُردو فلمیں پیش کی گئیں۔ صد شُکر کہ پچھلے چند ایک سالوں سے کسی قدر غیر روایتی موضوعات پر بھی کام کا آغاز ہوا ہے، نیز جدید ٹیکنالوجی کے سبب بھی کئی نئی جہتیں استوار ہوئی ہیں۔ اسی تناظر میں نئی ریلیز ہونے والی فلموں کے موضوعات میں کچھ تنوّع دیکھا گیا۔ 

سال کے پہلے نصف میں جو فلمیں ریلیز ہوئیں، اُن میں دادل، کُکڑی، تیری میری کہانیاں، وی آئی پی، منی بیک گارنٹی، ہوئے تم اجنبی، دوڑ، مداری، بےبی لیشیئس، آرپار اور اللہ یار اینڈ دی ہنڈرڈ فلاورز آف گاڈ قابلِ ذکر رہیں۔ اِن فلموں میں سےفیصل قریشی کی اپریل میں نمائش کے لیے پیش کی جانے والی فلم ’’منی بیک گارنٹی‘‘ نے چالیس کروڑ روپے سے زیادہ کا بزنس کیا، جب کہ فلم پر لاگت کا اندازہ بارہ کروڑ روپے لگایا گیا۔ یوں اِسے سالِ گزشتہ کی کام یاب ترین فلم کہا جاسکتا ہے۔ 

فلم کی کاسٹ میں فواد خان، وسیم اکرم اور عائشہ عُمر شامل تھے۔ فلم ’’اللہ یار اینڈ ہنڈرڈ فلاورز آف گاڈ‘‘ کی صُورت پاکستان میں پہلی اسٹیریو اسکوپک تھری ڈی فلم بنانےکا بھی تجربہ کیا گیا۔ اس فلم میں ہمایوں سعید، بشریٰ انصاری اور علی ظفرکی آوازیں شامل تھیں، جب کہ ایک اور فلم ’’تیری میری کہانیاں‘‘ کا ذکر بھی ضروری ہے کہ یہ تِھری اِن وَن تھی اور اِس کے ساتھ نبیل قریشی، مرینہ خان اور ندیم بیگ جیسے بڑے ڈائریکٹرز کے نام جُڑے ہوئے تھے۔ یہ فلم بھی خاصی پسند کی گئی۔ جون میں نمائش کے لیے پیش کی جانے والی ایک سو بچّوں کے قاتل، جاوید اقبال پر بننے والی فلم ’’کُکڑی‘‘ گرچہ کچھ خاص کام یابی حاصل نہ کر سکی، مگر کہانی اور یاسر حسین کی اداکاری کے اعتبار سے بہرحال یہ ایک اچّھی فلم تھی۔ 

سال کے آخری چھے ماہ میں بننے والی فلموں میں ڈھائی چال، گنجل، چِکّڑ، تیرہ، ان فلیمز، کمبیٹیواو، جون اور سَرکٹا انسان اہم رہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے موضوع پر بنائی جانے والی فلم ’’ڈھائی چال‘‘ اور بچّوں کی جبری مشقت کے خلاف بنائی جانے والی فلم ’’گنجل‘‘ اچھی موضوعاتی فلمیں تھیں۔1994ء میں سائنس فِکشن پر بننےوالی فلم ’’سَر کٹا انسان‘‘ کا Re-master بھی گزشتہ برس کی ایک پیش رفت تھی کہ سائنس فِکشن ایک ایسا فلمی موضوع ہے، جس پر بہرحال ابھی پاکستان فلم انڈسٹری کو بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ 

پرانی فلم کا ’’ری ماسڑ‘‘ بھی بلاشبہ اچھی کوشش ہے، مگرنئی کہانیوں پر کام اور فلم بندی میں اعلیٰ تیکنیکی مہارتوں کے استعمال پر بھی توجّہ مرکوز کی جانی چاہیے۔ سالِ رفتہ ایک بڑی کام یابی کینیڈا سے فلمی اشتراک کی صُورت، غیر مرئی قوّتوں پر بنائی جانے والی اُردو فلم ’’اِن فلیمز‘‘ کی نمائش بھی تھی۔ اس فلم کے ہدایت کار پاکستانی نژاد کینیڈین شہری ضرار خان ہیں، جب کہ کاسٹ میں زیادہ تر پاکستانی، تو تیکنیکی عملے میں کینیڈین افراد شامل تھے۔ یہ تجربہ ہر طرح کام یاب رہا کہ ہالی وُڈ سمیت فلم کو ہر سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی، حتیٰ کہ چھیانویں اکیڈمی ایوارڈ میں بہترین غیر مُلکی فلم کے طور پر شامل کیا گیا، تو کانز فلم فیسٹیول میں فلم ڈائریکٹرز کے خصوصی اجتماع میں دکھایا گیا۔

شارٹ فلمز: مختصر فلمیں بنانے کا رواج ایک صدی سے زیادہ قدیم ہے۔ ان کا دورانیہ عموماً ایک سے چالیس منٹ تک کا ہو سکتا ہے۔ یہ فلمز عموماً کسی خاص مقصد یا پیغام کی تشہیر کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ گزشتہ برس پاکستان میں مختصر دورانیے کی کئی فلمیں بنائی گئیں، جن میں سے پچّاس کے قریب فلموں کو اندرون اور بیرونِ مُلک پذیرائی حاصل ہوئی۔ جب کہ کووڈ- 19کے پس منظر میں بنائی جانے والی فلم ’’ان ماسکنگ‘‘ کو بین الاقوامی ایوارڈز ملے، تو دو مختصر فلموں حرا یوسف زئی کی ’’سولٹیا‘‘ اور ماہ نور کی’’عید مبارک‘‘ کے نام اُن چودہ فلموں میں شامل ہیں، جو سعودی عرب میں ہونے والے ’’ریڈ سی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول‘‘ میں دکھائی جائیں گی۔ یاد رہے، اس فیسٹیول میں امریکا سمیت دنیا کے کئی ممالک شرکت کر رہے ہیں۔ نیز، عُمر عادل کی مختصر فلم ’’ نور‘‘ کو کانز ورلڈ فیسٹیول میں صحت کے موضوع پر بنائی جانے والی بہترین فلم کا ایوارڈ دیا گیا، جب کہ اس فہرست میں ایک اور پاکستانی فلم، ’’پہچان‘‘ بھی شامل تھی۔

علاقائی زبانوں کی فلمیں: ’’دی لیجینڈ آف مولا جٹ‘‘ کی کام یابی نےایک طویل عرصے بعد پنجابی فلموں کے لیے نہ صرف راہ ہم وار کی، بلکہ اسٹیج ڈراموں تک محدود ہوجانے والےفلم بینی کے شوقین افراد کو دوبارہ سینما کا رُخ کرنے پر مجبور کیا۔ سال 2023ء کے آغاز ہی میں دو پنجابی فلمز پرویز کلیم کی ’’رنگ عشقے دا‘‘اور ابو علیحہ کی ’’سُپرپنجابی‘‘ نمائش کےلیے پیش کی گئیں، جب کہ تیسری پنجابی فلم ’’شارٹ کٹ‘‘ سال2022 ء کے آخری ہفتے سے سینمائوں پر موجود تھی۔ 

پھر ایک اور پنجابی فلم ’’لاہور قلندر‘‘ بھی سال کے آخر میں ریلیز ہوئی۔ یاد رہے،’’سُپر پنجابی‘‘پاکستان سمیت مختلف ممالک کے آٹھ سو سنیمائوں میں ریلیز کی گئی۔ پنجابی فلموں کےعلاوہ دیگر علاقائی زبانوں میں پشتو فلموں کے شائقین کے لیے بھی فلمیں پیش کرنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے، تو عیدالفطر کے موقعے پر چار پشتو فلمیں نمائش کے لیے پیش کی گئیں، جن سے خیبر پختون خوا کے سنیما گھروں کی رونقیں کسی حد تک بحال رہیں۔ سندھی زبان میں بننے والی ایک فلم ’’انڈس ایکو‘‘ کا بھی کافی چرچا رہا، مگر ہنوز، نمائش کے لیے پیش نہیں کی جاسکی۔

بالی ووڈ : ایسی بھارتی فلموں کو، جن میں پاکستانی فن کاروں نے بھی اداکاری کے جوہر دکھائے ہوں، پاکستان میں نمائش کی اجازت ہے۔ سو، سال2023ء میں ایک درجن سے زیادہ بھارتی فلمیں پاکستان میں نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔ ’’کیری اون جٹّا تھری‘‘ جون کے مہینے میں ریلیز ہوئی، جس میں پاکستانی اداکار ناصر چنیوٹی نے کام کیا تھا۔ فلم باکس آفس پر بہت کام یاب رہی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق نمائش کے پہلے چار دنوں میں اس فلم نے تقریباً چار کروڑ روپےکا کاروبار کیا، جب کہ پاکستان میں اس کا کُل بزنس پچیس کروڑ سے زیادہ رہا۔ اکتوبر میں پیش کی جانے والی بھارتی پنجابی فلم ’’اینی ہائو مٹی پائو‘‘ بھی کام یاب رہی، اس فلم میں پاکستانی اداکاروں اکرم اُداس اور وکی کوڈو نے اداکاری کے جوہر دکھائے۔ نیز، دیگر فلموں میں ’’موجاں ہی موجاں‘‘، ’’سردارا اینڈ سنز‘‘ اور ’’لیمبرگنی‘‘ بھی قابل ذکر ہیں۔

دنیا کی دوسری بڑی فلمی صنعت بالی ووڈ کے لیے یہ سال خاصا اچھا ثابت ہوا اور باکس آفس پر اس کی کئی فلمیں ہٹ ہوئیں۔ شاہ رُخ خان، رنبیرکپور، سنی دیول، رنویرسنگھ جیسے تجربہ کارادکاروں نےاداکاری کےخُوب جوہر دکھائے اور اُن کے کام کودُنیا بھر میں پسند کیا گیا۔ جب کہ شاہ رخ خان کے لیے تو یہ سال بالی ووڈ میں شان دار واپسی کا سال ثابت ہوا۔ اُن کی فلموں’’پٹھان‘‘، ’’جوان‘‘ اور ’’ڈنکی‘‘ کی کام یابی نے ایک بار پھر اُنہیں بالی ووڈ کا بادشاہ ثابت کردیا۔ سال2023 ء میں بالی ووڈ میں ایک سو پینتیس فلمیں نمائش کے لیے پیش کی گئیں، جن میں تین فلموں ’’جوان‘‘، ’’پٹھان‘‘ اور ’’اینیمل‘‘ نے ایک سو ملین ڈالرز سے زیادہ کا کاروبار کیا۔ 

باکس آفس پرایک سو چالیس ملین ڈالرز کے کاروبار کے ساتھ سب سے نمایاں فلم ’’جوان‘‘ رہی، جس میں شاہ رُخ خان ڈبل رول میں نظر آئے۔ شاہ رُخ خان ہی کی ایکشن اور تجسّس سے بھرپور دوسری فلم ’’پٹھان‘‘ ایک سو تیس ملین ڈالرز کے کاروبار کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی، جو ریلیز سے قبل ہی پاکستان میں متنازع قرار دے دی گئی ، جب کہ رنبیر کپور، بوبی دیول اور انیل کپور کی فلم ’’اینیمل‘‘ ایک سو دس ملین ڈالرز کے کاروبار کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔ اس فلم کو کام یابی کے باوجود تشدّد، مذہبی منافرت اور جنسی مواد کے باعث تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ فلم ’’بھید‘‘ کی کہانی کورونا وائرس کے دوران لگائے جانے والے لاک ڈائون کے موضوع پر ہے۔ 

دیگر اہم فلموں میں’’ٹائیگر تھری‘‘، ’’سام بہادر‘‘،’’لیو‘‘،’’12thفیل‘‘، ’’میوزک اسکول‘‘، ’’او ایم جی 2‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ بالی ووڈ کی ناکام فلموں کی شرح خاصی کم رہی، جن پانچ فلموں کو مکمل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، اُن میں کنگنارناوٹ کی ’’تیجاس‘‘ اور ’’چندر مُکھی 2‘‘، ٹائیگر شیروف کی ’’گنپتھ‘‘، ویوک اگنی ہوتری کی ’’دی ویکسین وار‘‘ اور فلم ’’سیلفی‘‘ شامل ہیں۔ سالِ رفتہ پندرہ سے زائد فن کاروں نے بالی ووڈ میں اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا۔ فلم ’’دی آرچز‘‘ سے شاہ رُخ خان کی بیٹی سہانا خان، امیتابھ بچن کے نواسے اگستیا نندا اور سری دیوی کی بیٹی خوشی کپور نے اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا۔ فلم اسٹار عامرخان کے بیٹے جنید خان بھی فلم ’’مہاراج‘‘ سے فلمی سفر کا آغاز کرنے والے ہیں۔ بزنس کے اعتبار سے بالی ووڈ کے پچھلے دوسال کچھ زیادہ اچھے نہیں گزرے تھے، مگر سال2023ء بھارتی فلمی سلطنت کے لیے ایک کام یاب سال رہا۔ ایک اندازے کے مطابق بالی ووڈ نے 10541 کروڑ بھارتی روپوں کا کاروبار کیا، جو سال 2022ء سے چار گُنا زیادہ ہے۔

ہالی ووڈ: پاکستان میں نمائش کے لیے پیش کی جانے والی انگریزی فلمز میں سُپرماریو برادرز، ایول ڈیڈرائز، انڈیانا جونز اینڈ دی ڈائل آف ڈیسٹنی، فاسٹ ایکس،گارڈین آف گلیکسی، اسپائڈرمین، ٹرانس فارمر:رائس آف دی بیسٹس، دی لٹل مرمیڈ ،اینٹ مین اینڈ دی واسپ، دی فلش، بلیو بیٹل، ایکولائزتھری، نپولین، جان وِک چیپٹر فور،مشن امپاسبل ڈیڈ ریکننگ (پارٹ وَن)، باربی، ایکسپینڈیبلز فور، اوپن ہائمراور کِلرز آف دی فلا ور مون قابلِ ذکر ہیں۔ یاد رہے، پاکستان میں 100کے قریب انگریزی فلمز ریلیز کی گئیں اور ان میں سے کئی فلمز ہالی ووڈ کی 20بہترین موویز میں شامل تھیں۔ ’’باربی‘‘ ایک تخیّلاتی کہانی پر مبنی فلم ہے، جسے پورے پاکستان میں نمائش کی اجازت ملی، مگر پھر پنجاب میں پابندی لگا دی گئی، جو بعد ازاں، پنجاب حکومت کی ہدایت کے بعد اُٹھا بھی لی گئی۔

فلم ’’ایول ڈیڈ رائز‘‘ کو پاکستان میں خاصی ہارر فلم کے طور پر پسند کیا گیا، جب کہ ٹام کروز کی فلم ’’مشن امپاسیبل ڈیڈ ریکننگ‘‘ کو عام لوگوں کے علاوہ فلمی صنعت سے وابستہ افراد نے بھی بہت پسند کیا۔ ہالی ووڈ میں سال2023ءمیں لیونارڈو ڈی کیپریو کی فلم ’’کِلرز آف دی فلاور مون‘‘، ٹام کروز کی ’’مشن امپاسیبل ڈیڈ ریکننگ‘‘ اور جان ٹراوولٹا کی’’دی شیپرڈ‘‘ زیادہ کام یاب رہیں۔ لیکن مجموعی طور پر ’’باربی‘‘ اور ’’سُپرماریوبرادرز‘‘ کو سال کی بہترین فلمیں قرار دیا جا سکتا ہے۔ 

سپرماریوز برادرز ایک اینیمیٹد فلم ہے، جس کی کہانی جادوئی دُنیا میں گُم ہو جانے والے دو پلمبرز کے گرد گھومتی ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ دونوں فلمیں پاکستان میں بھی نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔ ہالی ووڈ کی دیگراہم فلموں میں’’ہنگر گیمز‘‘، ’’باٹم‘‘،’’مائی دسمبر‘‘، اور ’’دی ونڈر فُل اسٹوری آف ہنری شوگر‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ سالِ گزشتہ غیر مُلکی انگریزی فلمز کے علاوہ چینی، عربی اور کورین زبان کی موویز بھی پاکستانی سنیماز کی زینت بنیں۔ان میں عربی زبان کی مصر فلم،’’ ووئے‘‘ قابلِ ذکر ہے۔ معیاری کہانی پر مبنی اس فلم میں مصر کی سُپر اسٹار اداکارہ، نیلی کریم نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا، لیکن یہ فلم بینوں کی زیادہ توجّہ حاصل نہ کر سکی۔

ملکِ عزیز کےدیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح فلمی صنعت بھی اَن گنت مسائل، شدید بحران سے دوچار ہے۔ تاہم، سالِ رفتہ حکومت پاکستان نے کچھ ایسے اقدامات کیے، جن کا مختصر ذکر ضروری ہے۔ مثلاً سینما گھروں کی تعداد میں کمی کا بڑاسبب اُن پر ٹیکسز کی بھرمار ہے، تو حکومت کا فلمی صنعت کو دس سال کے لیے ٹیکس فری قرار دینا، بحالی کی طرف اہم پیش قدمی ہے۔ پھر دو ارب روپے سے ایک فنانس فنڈ کا اجرا کیا گیا، جب کہ ایک ارب روپیا اس صنعت سے وابستہ لوگوں کی صحت و زندگی کی انشورنس کے لیے بھی مختص کیا گیا۔ فلمی صنعت سے وابستہ افراد نے ان حکومتی اقدامات کو سراہا، مگر ناکافی قرار دے کر آنے والی نئی حکومت سے بھی خاصی اُمیدیں وابستہ کر رکھی ہیں،جب کہ مالی معاملات کے ساتھ وہ سینسر پالیسی میں نرمی اور غیر ملکی فلموں کی یک طرفہ ٹریفک کے ضمن میں اصلاحات کے بھی خواہاں ہیں۔