پاکستانی حدود میں ایران کی جانب سے میزائل اور ڈرون حملوں کی شکل میں کی گئی مداخلت نے جہاں ایک طرف ملک بھر میں ’’دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف، اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی‘‘ والی کیفیت نے سخت حیرت اور صدمے کا ماحول پیدا کردیا وہیں عسکری و سیاسی قیادت کے لیے بھی ناگزیر ہوگیا کہ اس کھلی اوربے جا مداخلت کا قرار واقعی جواب دے کر اپنی قومی خودمختاری منوائی جائے۔ ایران کے اس مؤقف پر کہ اس نے بلوچستان میں اپنے ہی ملک کے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ہدف بنایا ہے،پاکستانی فوج نے بھی ایران میں بلوچستان کے علیحدگی پسند دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو جدیدہتھیاروں سے فضائی حملے کا نشانہ بنا کر برابر کا جواب دیا۔ تاہم اس پیش رفت کے ساتھ ہی دونوں جانب سے معاملات کو بات چیت سے بہتر بنانے اور غلط فہمیاں دور کرکے دیرینہ برادرانہ و دوستانہ تعلقات کی جلدازجلد بحالی کے جذبات کا اظہار کیا گیا اور اس مقصد کیلئے مختلف سطحوں پر رابطے شروع ہوگئے جبکہ چین، روس، ترکی اور اقوام متحدہ نے بھی خطے میںایک نئی جنگ کے خطرے کو روکنے کی خاطر فریقین میں اختلافات ختم کرنے کیلئے اقدامات کیے ۔یہ کوششیں رنگ لائیں اور جمعے کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان نے برادراسلامی ملک ایران کے ساتھ حالیہ کشیدگی ختم اور سفارتی تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کرلیا۔قومی سلامتی کمیٹی نے پاکستان ایران کشیدگی سے پیدا ہونے والی صورت حال کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد دہشت گردی کے خاتمے کیلئےانٹیلی جنس پر مبنی کارروائیاں جاری رکھنے پر اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہرگز کشیدگی نہیں چاہتامگرملکی سالمیت اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا۔ اڑھائی گھنٹے جاری رہنے والے اجلاس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا، پاک فضائیہ اور پاک بحریہ کے سربراہان، نگراں وزیر خارجہ، وزیر خزانہ اور خفیہ اداروں کے اعلی حکام نے شرکت کی۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ایران کی جارحیت پر ہمارا جواب موثر اور اہداف کے حصول پر مبنی تھا، پاکستان ایک ذمہ دار اور پر امن ملک ہے اور ہم ہمسایوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہتے ہیں۔کمیٹی کے اجلاس کے فوراً بعد نگراں وزیر اعظم انوارالحق کی صدارت میں وفاقی کابینہ کا اجلاس ہواجس میں قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں کی توثیق کی گئی۔ جمعہ کودن بھر دونوں ممالک کے درمیان سفارتی چینلوںکے ذریعے رابطے جاری رہے جبکہ پاک ایران وزرائے خارجہ کے مابین ٹیلی فونی رابطہ بھی ہواجس میں سفیروں کی واپسی اور مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کابینہ کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف ایران کے غلط اقدام کا جواب دیا جبکہ پاکستان کی جانب سے ایرانی وزیر خارجہ کو دورہ پاکستان کی دعوت بھی دی گئی ہے۔بلاشبہ پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت نے ایرانی حملے سے جنم لینے والی ناخوشگوار صورت حال سے نمٹنے میں بڑی ہوشمندی اور چابکدستی کا مظاہرہ کیا جس سے پاکستان کی دفاعی صلاحیت اور خودمختاری کی حفاظت کی اہلیت پوری دنیا پر بخوبی واضح ہوئی ۔ جہاں تک دہشت گردی کے چیلنج کامعاملہ ہے تو یہ پاکستان وایران سمیت پورے خطے کو درپیش ہے لہٰذا سب کو مشترکہ کاوشوں کے ذریعے سے اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ایک دوسرے پر فضائی حملے مسئلے کی سنگینی بڑھا تو سکتے ہیں اس کے حل کیلئے سازگار ماحول کی تیاری میں ہرگز معاون نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا امید ہے کہ اب دونوں جانب سے تحمل اور بردباری کے ساتھ مؤثر بات چیت کا راستہ اختیار کیا جائے گا اور سفارتی تعلقات کی بحالی بھی جلد عمل میں آئے گی۔