• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں انتخابی سرگرمیاں آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہیں۔کچھ عناصر کی طرف سے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش بھی مسلسل کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں اس نوعیت کی افواہیں بھی پھیلائی جا رہی ہیں کہ عام انتخابات 8 فروری کو ہوں گے ہی نہیں ۔دوسری طرف الیکشن کمیشن دیگر اداروں اور محکموں کے ساتھ مل کر انتخابات کے انعقاد کیلئے تیاریاں کررہا ہے اور انتخابی عملے کے طور پر خدمات انجام دینے والے سرکاری ملازمین کی تربیت کا عمل بھی جاری ہے ۔انتخابی عمل کے اہم ترین مراحل میں ایک انتخابی نشانوں کی الاٹمنٹ جو ان دنوں ملک بھر میں اس وجہ سے سب سے اہم موضو ع بنی ہوئی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے روایتی انتخابی نشان ’بلے‘کی الاٹمنٹ کا مسئلہ ہفتے کی رات تک طے نہیں ہو پارہا تھا۔اب ملک کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد امید ہے کہ یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔اپنے فیصلے کے ذریعے سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان ’بلے‘ سے متعلق پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا ہے ۔الیکشن کمیشن کی اپیل منظو ر کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ میں درخواست ناقابل سماعت تھی،ایک ہی وقت میں 2ہائیکورٹس میں کیس نہیں چل سکتا ،پی ٹی آئی نے شفاف انٹرا پارٹی انتخابات کے شواہد پیش نہیں کئے عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ملک جمہوریت نے دیا،الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، سیاسی جماعتیں انٹرا پارٹی انتخابات کی پابند ہیں۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کی ۔یہاں یہ بات بھی کہنا ضروری ہے کہ کراچی کے حافظ نعیم الرحمن جماعت اسلامی کے سربراہ نے یہ کہا ہے کہ اسی طرح کے انتخابات تو پیپلز پارٹی ،ن لیگ اور جے یو آئی نے کرائے ہیں ۔ان کا بھی ایسا کوئی مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیاکہ کسی کے خلاف کسی نے کوئی امیدوا ر کھڑا کیا ہواور ایسے ہی فیصلے ہوتے رہے ہیں ہمیشہ سے سیاسی پارٹیوں میںان تینوں جماعتوں کے خلاف بھی الیکشن کمیشن نے کیوں نوٹس نہیں لیا ۔۔اصولاََ بقول حافظ نعیم الرحمن صاحب کے ان تینوں جماعتوں کے بھی نشانات واپس لئے جائیں ۔ اور چیک کیا جائے کہ انہوں نے الیکشن کیسے کرائے ۔

پی ٹی آئی انتخابی نشان سے محروم ہونے کے بعد ردِعمل کا اظہار کر رہی ہے لیکن ایک فیصلہ 2017ء میں بھی آیا تھا جسے قانونی امور کے ماہرین نے کمزور فیصلے سے تعبیر کیا تھا کیونکہ پانامہ سے شروع ہونے والا کیس اقامہ پر ختم ہوا تھا۔ نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے بھی دو پہلو تھے‘ ایک قانونی اور دوسرا اخلاقی۔ اقامہ سے متعلق کوئی کیس ہی نہیں تھا لیکن اگر دورانِ تحقیقات یہ سامنے آ گیا تو اسے نظر انداز کرکے ساری توجہ پانامہ کیس پر رکھی جا سکتی تھی‘ اکثر مقدمات میں ایسا ہی ہوتا ہے‘ تاہم جب ایک کمزوری سامنے آ گئی اور قانون کے تحت اس کی سزا بھی دی جا سکتی تھی تو اس کیس کے قانونی پہلوئوں کو مدنظر رکھا گیا اور منتخب وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا گیا۔ اُس وقت چونکہ پی ٹی آئی ایک پیج پر ہونے کی دعویدار تھی اور ایک دوسری سیاسی جماعت انتقام کے نشانے پر تھی تو اس کمزور فیصلے پر بھی شادیانے بجائے گئے۔پاکستان جیسے ممالک میں نظامِ انصاف سے اپنے حق میں فیصلوں کی توقع رکھنا ایک عام سی بات ہے لیکن جب یہ توقعات غیرمعمولی حد تک جا پہنچیں اور فیصلہ خلافِ توقع آ جائے تو نظامِ انصاف کو مورد الزام ٹھہرانا ایک ایسا رجحان بن گیا ہے جو عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کا خیال ہے کہ عدالتوں کا کام ہر حال میں ان کے حق میں فیصلہ کرنا ہے‘ خواہ قانون اور ثبوت کچھ بھی کہتے ہوں۔ اس طرح وہ نظامِ انصاف سے ایسی ناقابلِ عمل توقعات وابستہ کر لیتی ہیں جن کا پورا کرنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ جب ان کی یہ توقعات پوری نہیں ہوتیں تو وہ عدالتوں اور منصفین کے فیصلوں کو جانبدارانہ قرار دے دیتے ہیں۔

سال 2024کی کہانی کچھ مختلف ہے گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں اس سال ایک پارٹی جس کے ساتھ عوام کی اکثریت ہے ، کو الیکشن سے باہر کیا جارہا ہے پی ٹی آئی کے تمام امیدوار آزاد الیکشن لڑیں گے پارٹی کا نام کسی کے ساتھ نہیں ہوگا اس سے تو انتخابات صاف شفاف ممکن ہی نہیں۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جو صرف ایک پارٹی کو باہر کرکے بنائی جارہی ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی ،پاکستان مسلم لیگ ن،تحریک لبیک پاکستان ،جماعت اسلامی،جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان ،متحدہ قومی موومنٹ سمیت درجنوں جماعتیں موجود ہیں ان کے انتخابی نشان بھی موجود ہیں ،غائب ہے تو صرف پاکستان تحریک انصاف اور اس کا انتخابی نشان ’’بلا‘‘ ۔آخر یہ کیسی جمہوریت ہے ؟۔انتخابات میں ٹرن آئوٹ کا نتائج کے ساتھ گہرا تعلق ہے‘ ووٹنگ کی شرح کم یا زیادہ ہونے سے نتائج مختلف ہو سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی پچھلے دونوں انتخابات میں نوجوان اور خواتین ووٹرز کی اچھی خاصی تعداد کو باہر نکالنے میں کامیاب ہوئی۔ اب جبکہ پی ٹی آئی بلے کے نشان سے محروم ہے تو کم ٹرن آئوٹ کے امکانات ہیں جس کا نقصان پی ٹی آئی کو ہو سکتا ہے۔ ووٹر یہ سمجھے گا کہ جس امیدوار کو وہ ووٹ دے رہا ہے‘ اگر منتخب ہونے کے بعد اس نے کسی دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کر لی تو اس کا ووٹ ضائع ہو جائے گا۔یوں ٹرن آئوٹ کم ہونے کا فائدہ دیگر سیاسی جماعتوں کو ہو گا کیونکہ ان کا ووٹر باہر نکلے گا جس کی بنیاد پر دوسری سیاسی جماعتیں اکثریت حاصل کرسکتی ہیں۔ پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پی ٹی آئی کو ریلیف ملتا ہے یا نہیں‘ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا البتہ حالیہ فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت اور کارکنان میں مایوسی ہے۔ چند روز پہلے تک جو کہہ رہے تھے کہ بلّا نہ ہونے کی صورت میں ان کے پاس متبادل پلان موجود ہے‘ وہ بھی اب پریشان دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ پارٹی نشان کے بغیر الیکشن لڑنے کے نقصانات سے وہ آگاہ ہیں۔

تازہ ترین