چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہم ظلم اور انتقام کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے، پی ٹی آئی کارکن میرا ساتھ دیں۔
لاہور میں جلسے سے خطاب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سیاسی مخالفین کی بہنوں اور بیٹیوں کو جیلوں میں ڈالنا سیاست نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ن لیگ دہشت کے ساتھ پی ٹی آئی کارکنوں سے انتقام لے رہی ہے، ظلم اور انتقام کی سیاست پر یقین نہیں رکھتا۔
پی پی پی چیئرمین نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے کارکن ساتھ دیں اور انتقام کی سیاست دفن کردیں گے، بینظیر بھٹو کا نامکمل مشن مل کر مکمل کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نوجوان ہوں مجھے نوجوانوں کے مسائل کا پتہ ہے، میں جانتا ہوں ظلم کی سیاست سے خاندانوں پر کیا گزرتی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے یہ بھی کہا کہ نفرت اور تقسیم کی سیاست سے ملک اور معاشرہ تقسیم ہو رہا ہے، ن لیگی کارکنوں نے ووٹ کی عزت کے نعرے کےلیے ظلم برداشت کیے۔
انہوں نے کہا کہ ن لیگ اپنا نظریہ چھوڑ سکتی ہے مگر میں اپنا نظریہ نہیں چھوڑ سکتا۔
پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ اقتدار میں آکر ٹرتھ اینڈ ری کنسلی ایشن کمیشن بنا کر زخموں پر مرہم رکھیں گے، ملک میں اس وقت معاشی اور جمہوری بحران ہے، پاکستان کے امن کو خطرہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اعتزاز احسن 3 نسلوں سے پیپلز پارٹی کے ساتھ ہیں، اختلاف رائے ہوسکتا ہے، لاہور میں کھڑے ہو کر ایک پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آپ مایوس نہ ہوں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ حالات ضرور مشکل ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری اور غربت بڑھتی جارہی ہے، دہشتگرد ایک بار پھر سر اٹھا رہے ہیں، ہمیں سب نظر آرہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ہم پر طنز کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ الیکشن لڑنے لاہور کیوں آئے ہو، ان کو کوئی سمجھائے لاہور میرا ہے ان کا نہیں، اسی شہر نے بینظیر بھٹو کو وزیراعظم بنوایا تھا۔
پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ اگر کسی سازش کے تحت پیپلز پارٹی کو پنجاب سے ہٹایا گیا تو نقصان پنجاب کا بھی ہوا، صوبے پر کبھی شوباز مسلط کیا جاتا ہے تو کبھی وسیم اکرم پلس۔
اُن کا کہنا تھا کہ کیا لاہور کی قسمت پر یہ ہی لکھا ہے کہ ان ہی چہروں کو بار بار مسلط کیا جائے؟ میں جدوجہد کرنے کےلیے آیا ہوں جب تک جیت نہیں جاتا اپنی جدوجہد جاری رکھوں گا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان کو پرانے سیاستدانوں کے حوالے نہیں کرسکتے۔ عوام مہنگائی، بیروزگاری سے تنگ آچکے ہیں، اسی لاہور نے بینظیر بھٹو کا تاریخی استقبال کیا۔
انہوں نے کہا کہ 10 نکاتی ایجنڈا کے تحت عوام کو ریلیف دیں گے، اگر مجھے موقع ملا تو تمام 10 نکاتی ایجنڈا پر عمل کروں گا۔
پی پی چیئرمین نے کہا کہ وفاق کی 17 وزارتیں بند ہونے سے سالانہ 300 ارب روپے بچیں گے جو عوام پر خرچ ہوں گے، ہماری حکومت میں آمدنی دگنی کرکے دکھاؤں گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ آپ بتائیں کیا اس تنخواہ میں گزارا ہوتا ہے؟ اشرافیہ کو سالانہ 1500 ارب روپے کی سبسڈی دی جاتی ہے، وہ ختم کرکے لاہور کے عوام پر خرچ کروں گا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان بھر میں 30 لاکھ گھر بناؤں گا، ہماری کردار کشی کی گئی، پیپلز پارٹی غریبوں کی جماعت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت آئی تو غریبوں کو سولر کے ذریعے 300 یونٹ مفت بجلی ملے گی، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں اضافہ کروں گا، خواتین کو بلاسود قرضہ دیں گے۔
پی پی چیئرمین نے کہا کہ نوجوانوں کو سمجھائیں کہ وہ اپنا ووٹ ضائع نہ کریں، عوام مجھے 4 نہیں ایک مرتبہ موقع دے، یوتھ کارڈ کے ذریعے نوجوانوں کی مالی مدد کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا ایک خواب ہے کہ پاکستان کا کوئی شہری بھوکا نہ سوئے، اگر مجھے حکومت ملی تو یونین کونسل کی سطح پر بھوک مٹاؤ پروگرام شروع کریں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ دسمبر سے اپنا منشور ہاتھ میں لے کر چاروں صوبوں کے دورے کر رہا ہوں، آخری 2 ہفتے ہیں کارکن اپنی محنت جاری رکھیں۔
انہوں نے کہا کہ میدان میں ہم ہی ہیں کوئی اور نظر نہیں آتا، جو ووٹ کی عزت کا دعویدار ہے وہ اس وقت اپنا نظریہ چھوڑ کر سیاست کر رہے ہیں۔
پی پی چیئرمین نے کہا کہ ہم بانی پی ٹی آئی کو کہہ کر تھک گئے تھے کہ سیاست کریں، گالم گلوچ سیاست نہیں ہوتی، مخالفین کی بہنوں اور بیٹیوں کو جیل میں ڈالنا سیاست نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ پاکستان کو 2024 میں بھی پرانی سیاست کی وجہ سے نقصان پہنچائیں۔ میں، میرا خاندان اور کارکن ن لیگ کے ظلم سے گذرے ہیں، الیکشن میں تیر اور شیر کا مقابلہ ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ 2024 میں بھی 90 کی دہائی یا ضیا یا مشرف کے دور کی سیاست کریں، میرے اسٹیج پر جیالے اور طاہر القادی کے نمائندے بھی موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طاہر القادری نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کی سیاست سے دور رہیں گے جبکہ پاکستان کی سیاست کو ان جیسے لوگوں کی ضرورت ہے۔
پی پی چیئرمین نے کہا کہ چوہدری سرور کی اپنی سیاسی سوچ ہوگی مگر ہم پاکستان کی خاطر جدوجہد کر رہے ہیں۔ اعتزاز احسن کے ساتھ کبھی سوچ میں اختلاف ہوسکتا ہے مگر سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔