عالیہ زاہد بھٹّی
نیا سال … نئی اُمنگ، نئی ترنگ …کچھ ہلکا پُھلکا، کچھ کھٹّا میٹھا، کچھ نرم گرم… بھیگا بھیگا دسمبر، جنوری کی سرد شام کا مخملیں چولا پہن کر بھی ٹھٹھرتا ہوا… کہنے کو نیا پن، مگر ازل سے لمحوں کے اُلٹ پھیر میں، دن اور رات کے اندھیر میں، زمانہ یہی سب کچھ دیکھتا آ رہا ہے۔ میرے دادا کے عہد میں نیا سال نئی فصلوں کی بوائی اور کٹائی کا پیام لاتا تھا۔ ابّو جی کے دَور میں سالِ نو دفتری کھاتے کی آڈٹنگ کی شِنوائی دیا کرتا تھا اور ہمارے زمانے میں نئے تعلیمی سیشن کی نوید لاتا ہے اور اگر بچّوں کے والدین شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہوں، تو پھر یہ نوید پورے گھر میں ولولہ انگیز تعلیمی سیشنز کی گونج بن جاتی ہے۔
سالِ نو قریب آتے ہی جہاں پیش گوئیاں کرنے والوں کی یلغار ہو جاتی ہے، وہیں شعرا کا کاروبار بھی خُوب چمک اُٹھتا ہے۔ نیز، نئے سال کے آغاز پر اپنی کیفیات بیان کرنے کے لیے ہر خاص و عام کی جانب سے داعیٔ اجل کو لبّیک کہنے والے معروف شعرا کے کلام کا استعمال بھی ایک عمومی مشغلہ بن چُکا ہے۔
مثال کے طور پر اگر کوئی سال بَھر اپنے محبوب کی جدائی کی تکلیف جھیلتا رہا، تو اُس نے احمد فراز کے اس شعر کی صورت میں دُہائی دی کہ؎ آج اِک اور برس بیت گیا اُس کے بغیر… جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے۔ اور اگر کوئی عشق کے سمندر میں ہوش و خِرد کھوئے بیٹھا ہے، تو وہ ابنِ انشا کی زبان میں کچھ اس طرح اپنا حالِ دل بیان کرتا ہے کہ ؎ اِک سال گیا ،اِک سال نیا ہے آنے کو …پر وقت کا اب بھی ہوش نہیں دیوانے کو۔
اگر کوئی نئے سال میں نیا پن دریافت نہ کر سکے، تو فیض لدھیانوی کی زبان میں کہہ اُٹھتا ہے کہ ؎ تُو نیا ہے، تو دِکھا صبح نئی، شام نئی… ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی۔ کسی دِل جلے کو سالِ نو کی مبارک باد اچّھی نہیں لگتی، تو اعتبار ساجد کی زبان میں کہتا ہے؎ کسی کو سالِ نو کی کیا مبارک باد دی جائے …کیلنڈر کے بدلنے سے مقدّر کب بدلتا ہے۔ اور تو اور، سالِ نو کا پردہ فاش کرنے پر کسی منتقم مزاج بچّے کی طرح منہ پر ہاتھ پھیر کر بہ زبانِ امیر قزلباش کچھ اس طرح دھمکایا بھی جاتا ہے کہ؎ یکم جنوری ہے، نیا سال ہے …دسمبر میں پوچھوں گا کیا حال ہے۔
تاہم، اب ایسا بھی نہیں ہے کہ سالِ نو کے آغاز پر سبھی قنوطیت پسند، یاسیت زدہ بن کر منہ بسورے طعن و تشنیع ہی کرتے رہتے ہیں، بلکہ کچھ زندہ دل اور جی دار فریاد آزر کے اس شعر کی صُورت خوب صُورت دعائیں بھی دیتے ہیں؎ نہ کوئی رنج کا لمحہ کسی کے پاس آئے …خدا کرے کہ نیا سال سب کو راس آئے۔
اسی طرح علی سردار جعفری سے عاشق مزاجوں کو کوئی سالِ نو کی مبارک باد دے، تو بے ساختہ پُکار اُٹھتے ہیں؎ یہ کس نے فون پے دی سالِ نو کی تہنیت مجھ کو …تمنّا رقص کرتی ہے، تخیّل گنگناتا ہے۔ اور یہ بھی کہ ؎ پُرانے سال کی ٹھٹھری ہوئی پرچھائیاں سِمٹیں… نئے دِن کا نیا سورج اُفق پر اُٹھتا آتا ہے۔ مذکورہ بالا شعرا تو ایک طرف، ڈیڑھ صدی سے زاید عرصے سے پرے جھانکنے پر چچا غالب بھی نئے سال کے بانکپن کا شکار نظر آتے ہیں۔؎ دیکھیے پاتے ہیں عشّاق بُتوں سے کیا فیض… اِک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچّھا ہے۔
نئے سال کے پردے ہمیشہ سے فاش ہوتے رہے ہیں۔ نیا سال نئے لوگوں کے لیے آتا ہے اور دُنیا سے جانے والوں کی یاد اپنے ساتھ لاتا ہے اور جب رخصت ہوتا ہے، تو ساری یادیں بھی ساتھ لے جاتا ہے۔ پھر نہ کوئی پِیر ہوتا ہے، نہ مُرید، مُرشد نہ ولی۔
عہد بدلتا ہے اور عُہدہ رُوٹھ جاتا ہے۔ عہد یاد رہتا ہے اور نہ عُہدہ ساتھ نبھاتا ہے۔ یہ اس دُنیا کی رِیت رہی ہے اور اسی رِیت سے ہمیں پریت رہی ہے۔ جب تک پریتم اپنے سنگ ہے، یہ پریت نبھائیں گے۔ سنگ رہے ساتھ پریتم کا، ساجن بِن پھر کیسے ہم سال نبھائیں گے ؟ گر ہوا ایسا، تو ہم بھی ساتھ ہی چلے جائیں گے۔