• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مبشّرہ خالد

فلک بوس پہاڑوں، سرسبزو شاداب وادیوں، جھرنوں، آب شاروں اور جھیلوں سمیت دیگر حسین قدرتی مناظر سے مالا مال پاکستان کا شمار دُنیا کے خُوب صُورت ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دہشت گردی کے پے در پے واقعات کے سبب پاکستان میں غیر ملکی سیّاحوں کی آمدورفت نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی، مگر دہشت گرد عناصر کے خلاف کام یاب کارروائیوں کے بعداب مُلک میں سیّاحت کو فروغ دینے کے لیے کئی اقدمات کیے جا رہے ہیں اور ان کے نتیجے میں دوسرے ممالک کے باشندے پاکستان کے مختلف سیّاحتی مقامات کا رُخ کرنے لگے ہیں۔ 

واضح رہے کہ پاکستان صرف سیّاحت کو فروغ دے کر ہی سالانہ اربوں روپے کا زرِ مبادلہ کما سکتا ہے، لیکن اس ضمن میں امن و امان کی ناقص صورتِ حال کے علاوہ ٹوٹی پُھوٹی سڑکیں، دشوار گزار راستے، ناکافی ذرایع آمدورفت اور دیگر انفرااسٹرکچر کی کمی رُکاوٹ ہیں۔ ذیل میں پاکستان کی چند خُوب صُورت ترین جھیلوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ 

گرچہ سہولتوں کی کمی اور پُرخطرراستوں کے باعث ان سیّاحتی مقامات تک رسائی کسی چیلنج سے کم نہیں، لیکن پُر فضا مقامات کی سیر و سیّاحت کے شوقین افراد اپنی بلند حوصلگی کے باعث تمام تر رُکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے منزل پر پہنچ کر ہی دَم لیتے ہیں اور پھر ان جھیلوں کا مسحور کُن حُسن سفر کی تمام تر صعوبتیں اور کُلفتیں بُھلا دیتا ہے۔

(1) جھیل سیف الملوک:

سطحِ سمندر سے 3244میٹرز کی بلندی پر واقع جھیل سیف الملوک دُنیا کی خُوب صُورت ترین جھیلوں میں سے ایک ہے۔ ناران سے جھیل سیف الملوک کا راستہ ڈیڑھ گھنٹے پر محیط ہے، جو دُشوار گزار پہاڑی گزرگاہوں پر مشتمل ہے۔ اس کٹھن راستے کو جیپ کے ذریعے طے کیا جاتا ہے۔ تاہم، جھیل پر پہلی نظر پڑتے ہی سیّاح اس کے حُسن میں کھو جاتے ہیں۔

(2) لولوسر جھیل:

لولو سر جھیل ناران سے ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے ۔ ہم وار سڑکوں کی وجہ سے جھیل سیف الملوک کی نسبت اس تک رسائی آسان ہے۔ یہ جھیل سطحِ سمندر سے 3353میٹرز کی بلندی پر واقع ہے۔ ناران آنے والے سیّاح اگر جھیل سیف الملوک تک رسائی حاصل نہ کر پائیں، تو تو لولوسر جھیل کی سیر ان کی ترجیح ہوتی ہے۔

(3) عطاء آباد جھیل:

عطاء آباد جھیل وادیٔ ہُنزہ، گلگت بلتستان میں واقع ہے۔ اس جھیل کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سیّاح صرف اس کے حُسن سے لطف اندوز ہونے کے لیے ہی وادیٔ ہُنزہ کا رُخ کرتے ہیں۔ مذکورہ جھیل کے صاف و شفّاف پانی میں کشتی رانی کا مزہ ہی الگ ہے۔ واضح رہے کہ 2010ء سے قبل عطاء آباد جھیل کانام ونشان تک نہ تھا اور یہ لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں اچانک وجود میں آئی۔ اس کی لمبائی21کلو میٹر اور گہرائی ایک سو میٹر سے زاید ہے۔

(4) نلتر ویلی کی جھیلیں:

گلگت اور وادیٔ ہُنزہ سے ایک راستہ نلتر ویلی کی جانب جاتاہےاور اس وادی تک پہنچنے کے لیے جیپ پر خاصے دُشوار گزار اور کٹھن راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ گرچہ اس وادی میں متعدد جھیلیں واقع ہیں، لیکن ’’سَت رنگی جھیل‘‘ اور ’’بلیو جھیل‘‘ سیّاحوں میں سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ 

یہاں سیر و سیّاحت کو فروغ دینے کے لیے مقامی باشندوں نے اپنی مدد آپ کے تحت لکڑی کے تختوں سے کشتیاں بنا رکھی ہیں، جن پر بیٹھ کر سیّاح جھیل کی سیر کرتے ہیں۔ 

یاد رہے کہ مذکورہ بالا دونوں جھیلوں کے علاوہ وادی میں واقع دیگر جھیلوں تک رسائی کے لیے ٹریکنگ کے دُشوار مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے سیّاح ان دونوں جھیلوں کی سیر ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔