16جنوری کی شب ایران کی جانب سے پاکستانی صوبے، بلوچستان کے علاقے، پنجگور کے گاؤں، سبز کوہ میں کیے جانے والے میزائل حملے نے دونوں پڑوسی اور برادر ممالک کے تعلقات کو اس حد تک کشیدہ کر دیا کہ جس کا گُمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ایرانی حملے میں دو بچّوں اور خاتون سمیت 3افراد جاں بحق ہوئے۔ پاکستان کے نگراں وزیر خارجہ، جلیل عبّاس جیلانی نے ایرانی حملے کو انتہائی اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’ اس سے دونوں ممالک کے تعلقات کو نقصان پہنچا۔
حملہ پاکستانی سالمیت کی کُھلی خلاف ورزی ہے اور اسے کوئی بھی مُلک برداشت نہیں کر سکتا۔ چاہے تعلقات کی نوعیت کیسی ہی کیوں نہ ہو، کہیں نہ کہیں ریڈ لائن قائم کرنا لازمی ہے۔‘‘ ایرانی حملے کے اگلے ہی روز پاکستان نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے ایرانی صوبے، سیستان میں بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ کے دہشت گردوں کو نشانہ بنایا۔ یاد رہے کہ مذکورہ دہشت گرد تنظیمیں طویل عرصے سے ایرانی بلوچستان سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوّث ہیں، جن کے نتیجے میں اب تک درجنوں معصوم شہری، پاک فوج کے جوان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کار شہید ہو چُکے ہیں۔
پاکستان کی جانب سے جوابی حملے کو ’’آپریشن مرگ بر سرمچار‘‘ کا نام دیا گیا، جس میں 9دہشت گرد مارے گئے۔ پاکستان کے جوابی حملے میں ہلاک ہونے والے افراد سے متعلق خود سیستان کے ڈپٹی گورنر نے اعتراف کیا کہ یہ ایرانی شہری نہیں تھے۔ یعنی انہوں نے پاکستانی دعوے کی تصدیق کر دی۔ اس موقعے پر پاکستانی وزرارتِ خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’ہم ایران کی خود مختاری کا مکمل احترام کرتے ہیں، لیکن اپنی قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
دریں اثنا، آئی ایس پی آر نے حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان میں حالیہ حملوں میں ملوّث دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے لیے ڈرونز، راکٹس، بارودی سرنگوں اور اسٹینڈ آف ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا اور ضمنی نقصان سے بچنے کے لیے ہر ممکن احتیاط برتی گئی۔‘‘ بہر کیف، یہاں خُوش کُن اَمر یہ ہے کہ ان حملوں کے بعد پاکستان اور ایران کے اعلیٰ حُکّام نے تحمّل اور بُردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں ممالک میں پائے جانے والے تنائو کا ختم کرنے اور منقطع سفارتی تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کیا۔
اگر خطّے کی موجودہ صورتِ حال پر نظر ڈالی جائے، تو پاکستان کے خلاف ایران کی جارحانہ کارروائی سمجھ سے بالاتر تھی۔ اس وقت اسرائیل، حمّاس جنگ چوتھے مہینے میں داخل ہو چُکی ہے اور آیندہ دنوں بھی اس کی شدّت میں کمی ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ حمّاس کے ذرایع کے مطابق، اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک 24ہزار غزہ کے شہری شہید ہو چُکے ہیں اور شہر کے شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے ہیں۔
سلامتی کائونسل، او آئی سی اور عرب لیگ سمیت تمام دیگر بڑے عالمی پلیٹ فورمز اسرائیلی جارحیت کو رکوانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ حمّاس کے سربراہ، اسماعیل ہنیہ اور حزبُ اللہ کے قائد، حسن نصراللہ عرب اور اسلامی ممالک سے مسلسل اپیلز کر رہے ہیں کہ وہ جنگ بندی میں اپنا کردار ادا کریں اور غزہ کے بے بس اور نہتّے عوام کو اس خوف ناک فوجی یورش سے بچائیں۔تاہم، اقوامِ عالم کی شدید مذمّت کے باوجود فلسطین میں جاری اسرائیل کی وحشیانہ بم باری سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ حمّاس کی عسکری صلاحیتوں کو ختم کر کے ہی دَم لے گا۔
یہ کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں کہ ایران اُن تمام تنظیموں اور ملیشیاز کو مالی و عسکری معاونت فراہم کرتا ہے، جو اسرائیل کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ اس ضمن میں حمّاس سرِفہرست ہے اور اس کے بعد لبنان کی حزبُ اللہ کا نمبر آتا ہے، جس کے قائد حسن نصر اللہ ہیں اور وہ آئے روز اسرائیل کے خلاف جارحانہ بیانات بھی دیتے رہتے ہیں۔ واضح رہے کہ حزبُ اللہ کے کئی سرکردہ فوجی اور سیاسی رہنمائوں کو اسرائیل نے لبنان کی سرزمین ہی پر نشانہ بنایا اور یہ تنظیم صرف انتقام کی دھمکیوں ہی تک محدود رہی۔
علاوہ ازیں، ایران ،یمن کے حوثی باغیوں کی بھی اعانت کر رہا ہے، جو کچھ عرصہ قبل تک سعودی عرب کے خلاف جنگ میں مصروف تھے، جس میں یمن کے 50 ہزار سے زاید شہری ہلاک ہوئے۔ بعد ازاں، چین کی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں ایران اور سعودی عرب کے مابین سات برس سے منقطع سفارتی تعلقات بحال ہوئے، جس پر اسلامی دُنیا نے سُکھ کا سانس لیا، کیوں کہ مذکورہ بالا دونوں ممالک کے مابین جاری کشیدگی نے پورے مشرقِ وسطیٰ ہی کو عدم استحکام سے دوچار کر رکھا تھا۔
سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد حوثی باغیوں نے سعودی عرب کے خلاف کاروائیاں روک دیں، لیکن پھر حمّاس، اسرائیل جنگ کے دوسرے مہینے میں انہوں نے خلیجِ عدن میں سمندری جہازوں پر راکٹ حملے شروع کر دیے۔ حوثی باغیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اُن جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، جن کا تعلق اسرائیل سے ہے، جب کہ دوسری طرف یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ حوثی باغیوں نے دیگر ممالک کے بحری جہازوں کو بھی نشانہ بنایا۔
واضح رہے کہ خلیجِ عدن اور باب المندب دُنیا کی اہم ترین آبی و فوجی گزر گاہوں میں شامل ہیں اور دُنیا کی 15فی صد سمندری تجارت انہی راستوں سے ہوتی ہے، جن میں آئل ٹینکرز بھی شامل ہیں اور ان سمندری گزرگاہوں پر حوثی باغیوں کے حملوں کے نتیجے میں تیل کی رسد متاثر ہونے اور اس کی قیمت میں دوبارہ اضافے کا امکان ہے، جو پہلے ہی بڑی مشکل سے کم ہوئی ہے۔
غیر مُلکی بحری جہازوں پر حملوں کے جواب میں امریکا اور برطانیہ نے یمن میں موجود حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کیا ہے اور اس ضمن میں اُنہیں پوری مغربی دُنیا کی حمایت حاصل ہے، جب کہ اس معاملے میں امریکی مخالفین، رُوس اور چین نے چُپ سادھ رکھی ہے، کیوں کہ کسی بھی مُلک کے لیے سمندری تجارتی راستوں کی بندش قبول کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اگر سمندری گزرگاہوں میں کشیدگی شدّت اختیار کرتی ہے،تو ایندھن کی قیمتوں میں خوف ناک حد تک اضافہ ہو گا اور اس کے نتیجے میں پوری دُنیا میں منہگائی کی ایک نئی لہر آئے گی۔
ایران کی جانب سے حمّاس، حزبُ اللہ اور حوثی باغیوں سمیت مشرقِ وسطیٰ بالخصوص شام و عراق میں کارروائیاں کرنے والی دیگر ملیشیاز کی حمایت پر مغربی ممالک نے ہمیشہ تنقید کی ہے۔ مذکورہ بالا تنظیموں کو مختلف ممالک میں ایران کے مفادات کے حصول کی خاطر بروئے کار لانے کے لیے ایران کے جنرل سلیمانی نے اہم کردار ادا کیا اور اُنہیں ایران کی جارحانہ خارجہ پالیسی کا معمار بھی قرار دیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ جنرل سلیمانی ٹرمپ دَور میں اُس وقت ایک ڈرون حملے میں مارے گئے، جب وہ عراق میں کار سے اُتر رہے تھے۔ حال ہی میں جنرل سلیمانی کی دوسری برسی کے موقعے پر ایران میں ایک دھماکے میں 80سے زاید افراد ہلاک ہوئے اور اس کے ردِ عمل میں ایران نے عراق و شام میں امریکی تنصیبات پر حملے کیے۔ بعض اطلاعات کے مطابق ایران میں یہ دھماکا داعش نے کیا تھا اور داعش پاکستان نہیں، بلکہ افغانستان میں موجود ہے۔
اب ہم پاکستان، ایران اور افغانستان کی موجودہ صورتِ حال پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ دفاعی اعتبار سے پاکستان باقی دونوں ممالک سے زیادہ مضبوط ہے، کیوں کہ پاکستانی فوج کا شمار دُنیا کی پہلی دس طاقت وَر ترین افواج میں ہوتا ہے اور پھر پاکستان ایک مسلّمہ ایٹمی طاقت بھی ہے۔ پاکستان میں چند روز بعد عام انتخابات ہونے والے ہیں، جو اس کے لیے خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایسے میں بعض اندرونی اور بیرونی عناصر پاکستان میں انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آئے روز دہشت گردی کے واقعات رُونما ہو رہے ہیں۔ صوبہ خیبر پختون خوا میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی اور دیگر جنگ جُو تنظیمیں ملوّث ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان نے ہمیشہ اپنی بساط سے بڑھ کر افغانستان کی مدد کی اور افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام میں پاکستان کا کردار فراموش کرنا نا ممکن ہے۔
علاوہ ازیں، پاکستان نے تقریباً 70لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کی، جس کے نتیجے میں پاکستان کی اپنی جڑیں ہل کر رہ گئیں۔ دوسری جانب صوبہ بلوچستان میں کم و بیش گزشتہ دو دہائیوں سے شورش جاری ہے اور اس کے ذمّے دار عناصر کی پناہ گاہیں بھی پڑوسی ممالک ہی میں قائم ہیں۔ اسلام آباد بار ہا تہران اور کابل کی توجّہ اس جانب مبذول کروا چُکا ہے اور اس وجہ سے ان ممالک اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں تلخی بھی پیدا ہوئی۔
اس ضمن میں بعض نقّادوں کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنے شمالی ہم سایوں کے ساتھ، جو مسلم ممالک ہیں، اچّھے تعلقات قائم کرنے میں کام یاب نہیں ہوا۔ اگر حالات کا بہ غور جائزہ لیا جائے، تو یہ تنقید مناسب نہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان نے جس طرح افغانستان کا ساتھ دیا، شاید ہی کسی مُلک نے دوسرے مُلک کا دیا ہو۔ گرچہ اس کے نتیجے میں پاکستان کو معاشی و سیاسی نقصانات کے علاوہ تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا، لیکن پاکستان نے افغانستان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ آج اگر طالبان حکومت اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہے، تو یہ اُس کا اپنا قصور ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ آج تک افغانستان میں کوئی مضبوط اور دیرپا حکومت قائم نہیں ہو سکی۔ افغان معیشت تباہ حال ہے۔ وہاں نہ کوئی گورنینس ہے اور نہ ہی دُور دُور تک ترقّی کے کوئی امکانات دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف ایران کے اپنے مسائل ہیں۔ سیستان، ایران کے 18 صوبوں میں سے وہ واحد صوبہ ہے، جو ہمیشہ عدم استحکام کا شکار رہا اور اس کی بہت سی سیاسی و سماجی وجوہ ہیں۔ تاہم، پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی کہ وہ ایران کے لیے آسانیاں پیدا کرے اور اس سلسلے میں ہر سطح پر تعاون بھی کیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران نے بھی پاکستان کا ہر طرح کی آزمائش میں ساتھ دیا اور ایران ہی وہ پہلا مُلک تھا، جس نے پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد اسے تسلیم کیا تھا۔ پاک، بھارت جنگ کے دوران بھی ایران، پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا۔ دوسری جانب پاکستان نے بھی ہمیشہ ایران کی خارجہ پالیسی کا احترام کیا۔ اس ضمن میں چاہ بہار پورٹ اور کابل تک جانے والی 700میل طویل شاہ راہ کی تعمیر قابلِ ذکر ہے۔ یاد رہے کہ چاہ بہار پورٹ، گوادر بندرگاہ کے سامنے واقع ہے اور بھارت برسوں اس کی تعمیر میں مصروف رہا۔
تاہم، پاکستان نے کبھی ایران سے تحفّظات کا اظہار نہیں کیا۔ اسی طرح بھارت اور ایران کے مابین قریبی تعلقات ہیں اور پاکستان نے کبھی بھی ان میں دراڑ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔ پھر ایران کو یہ بات بھی پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ پاکستان کی طرح اس کی معیشت بھی کم زور ہے۔ امریکی پابندیوں کے باعث ایران کو شدید دبائو کا سامنا کرنا پڑا، ایرانی ریال بے قدر ہو کر رہ گیا اور اس کے لیے تیل کی برآمد بھی ممکن نہیں رہی۔
یہی وجہ ہے کہ اب بڑے پیمانے پر ایرانی تیل سمیت دیگر مصنوعات کی اسمگلنگ جاری ہے اور پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ایرانی مصنوعات کا استعمال عام ہے، جب کہ پاکستان نے اپنے برادر مُلک کی کم زور معیشت کے پیشِ نظر ایرانی مصنوعات کی اسمگلنگ سے صرفِ نظر کیا، حالاں کہ اس سے اسلام آباد کو محصولات کی مَد میں اربوں ڈالرز کا نقصان ہو رہا ہے۔ پھر عرب ممالک سے کشیدگی کے باعث بھی ایران کی تجارت متاثر ہوئی۔ تاہم، ایران اور سعودی عرب کے مابین سفارتی تعلقات بحال ہونے کے بعد یہ تجارت بہتر ہونے کا امکان ہے۔
اُدھر امریکا کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم ہونے سے بھی ایران کو معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور کافی تگ و دو کے بعد تہران کچھ عرصہ قبل ایک قیدی کے تبادلے کے بدلے واشنگٹن سے 6ارب ڈالرز حاصل کرنے کام یاب ہوا۔ ایران کی مانند پاکستان کی معیشت بھی شدید ضُعف کا شکار ہے اور عرب ممالک، چین اور آئی ایم ایف کے قرضوں کے سہارے آگے بڑھ رہی ہے۔ نیز، گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستانی معاشرے میں سیاسی تقسیم میں بھی اضافہ ہوا ہے، جس میں اندرونی عناصر کے علاوہ بیرونی عوامل بھی کارفرما ہیں۔ مذکورہ بالا علاقائی منظر نامے کو سامنے رکھتے ہوئے پاک، ایران تنائو نہ صرف ان دونوں ممالک بلکہ پورے خطّے اور امتِ مسلمہ کے لیے نقصان دہ ہے، جو پہلے ہی انتشار کا شکار ہے۔
یہاں یہ اَمر بھی حوصلہ افزا ہے کہ پاکستان اور ایران نے حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے حالیہ تنائو کو ختم کرنے اور سفارتی تعلقاب بحال کرنے کا فیصلہ کیا، جو نہ صرف دونوں برادر ممالک بلکہ انتشار کے شکار پورے خطّے ہی کے لیے بے حد خوش آئند ہے اور پاکستان اور ایران دوست ممالک ہیں اور رہیں گے اور دونوں ہی کو ایک دوسری کی قومی سلامتی کا احترام کرنا چاہیے۔ پاکستان اور ایران کے دیرینہ تعلقات کے سبب ہی عالمی برادری نے ان حملوں پر تشویش کا اظہار کیا اور دونوں برادر ممالک کو صبرو تحمّل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا۔