• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ نے بلے کے انتخابی نشان کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انتخابی نشان بلے سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ 

38 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا۔ 

اس فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کرتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے پشاور ہائیکورٹ کا 10 جنوری کا مختصر فیصلہ چیلنج کیا، پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کی 14 شکایات پر فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ تحریک انصاف نے انٹراپارٹی انتخابات میں اپنے ہی ممبران کو لاعلم رکھا، قانون کے مطابق پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان نہیں دیا جاسکتا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو متعدد شوکاز نوٹس جاری کیے، شوکاز کے باوجود پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی انتخابات نہیں کروائے۔

اس میں یہ بھی کہا گیا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق الیکشن کمیشن سیاسی جماعت سے انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے، انٹراپارٹی انتخابات نہ کروانے پر انتحابی نشان واپس لیا جاسکتا ہے۔ 

فیصلے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کو بلے سے محروم کرنے کی ذمہ داری پارٹی معاملات چلانے والوں پر ہے، انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے کی ذمہ داری ان پر ہے جو پارٹی میں جمہوریت نہیں چاہتے۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ کسی جماعت کو معمولی بےضابطگی پر انتخابی نشان سے محروم نہیں کرنا چاہیے، انٹراپارٹی انتخابات کا نہ ہونا آئین و قانون کی بڑی خلاف ورزی ہے۔ انٹراپارٹی الیکشن جیت کر آنے والوں کو یہ اختیار ملتا ہے کہ وہ پارٹی امور چلائیں۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ الیکشن کمیشن کو اختیار ہے کہ انٹراپارٹی الیکشن نہ ہونے پر انتخابی نشان نہ دیں، جب الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو انٹراپارٹی انتخابات کےلیے سال کا وقت دیا اس وقت تحریک انصاف حکومت میں تھی، اس وقت بانی پی ٹی آئی وزیراعظم تھے، اس وقت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی تحریک انصاف کی حکومتیں تھیں۔ متعدد نوٹس جاری اور اضافی وقت دینے کے باوجود تحریک انصاف نے انٹراپارٹی انتخابات نہیں کروائے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ تحریک انصاف نے انٹراپارٹی انتخابات کے انعقاد میں قانونی تقاضوں کو نظر انداز کیا، 10 جنوری 2024 کا پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

قومی خبریں سے مزید