ایران کی طرف سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 16 اور 17 جنوری کی رات حملہ غیر متوقع اور غیر یقینی تھا ، ایران کی طرف سے پاکستان پر حملےکو پوری دنیا میںبالعموم اور اسلامی دنیا میں بالخصوص ایک افسوسناک اور خطرناک خبر کے طور پر دیکھا گیا۔پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کیلئے بھی ایران کی طرف سے حملہ افسوسناک اور ایک بہت بڑا امتحان تھا کیونکہ اگر اس طرح کا حملہ ہندوستان کی طرف سے ہوتا تو ماضی کی طرح اس کو فوری جواب دینا کوئی مشکل امر نہ تھا لیکن ایران کی طرف سے اس طرح کاقدم جس کی توقع نہ تھی بہت غمناک ، فکر مند کرنے والا تھا۔ ایران کے اس حملہ کے بعد ایک طرف اندرونی طور پر پاکستانی قوم اپنی فوج اور سلامتی کے اداروں کی طرف دیکھ رہی تھی اور دوسری طرف عالمی اور اسلامی دنیا بھی پاکستان کے ردعمل کے انتظار میں تھی ۔ اہم ترین اسلامی ممالک اس حملہ کی وجہ جاننے کیلئے بے تاب تھے اور پاکستان کو ہر ممکن تعاون کا یقین بھی دلا رہے تھے کہ آخر ایران نے ایسے وقت میں جب کہ فلسطین کی صورتحال انتہائی پیچیدہ ہے ایسا کیوں کیا؟۔
انتہائی معتبر ذرائع بتاتے ہیں کہ پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے 7 اکتوبر کے بعد عالم اسلام کے اہم ترین ممالک کی قیادت کو چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل حافظ سید عاصم منیر کی سرپرستی اور حکم سے آئی ایس آئی کے چیف جنرل ندیم انجم کی قیادت میں یہ معلومات مہیا کر دی تھیں کہ 7 اکتوبر سے غزہ فلسطین میں شروع ہونے والی جنگ کو عالم اسلام اور عالمی دنیا میں پھیلا کر طاقتور اور اہم مسلم ممالک کو کمزور کرنے کی کوشش کی جائیگی ۔ ذرائع یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان کی طرف سے عالم اسلام کے اہم ممالک کے ساتھ مشاورت اور معلومات کے تبادلہ کے نتیجہ میں اہم اسلامی ممالک بہت محتاط بھی ہوئے اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی ) کے سربراہی اجلاس میں اس صورتحال پر تبادلہ خیال کے بعد مناسب اقدامات بھی طے کیے گئے اور پاکستان اسلامی اور عالمی دنیا کے ساتھ مل کر غزہ کی صورتحال کی بہتری کیلئے کوشاں بھی ہے۔ ایران کی طرف سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے وقت عراق میں بھی اسی طرح کا حملہ کیا گیا جو یہ سمجھنے کیلئے کافی تھا کہ خطہ میں صورتحال بد سے بدتر ہو سکتی ہے اور اس کیلئے پاکستان کو عقل و دانش ، فہم و فکر اور صبر و تحمل کے ساتھ ایسے اقدامات کرنا ہوں گےجن سے پاکستان کا مؤثر جواب بھی چلا جائے اور صورتحال مزید خراب بھی نہ ہو۔
یہاں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ ایرانی حملہ کے بعد پاکستانی قوم متحدہو کر اپنی افواج اور سلامتی کے اداروں کی پشت پر کھڑی ہو گئی تھی ، وہ عناصر جن کا خیال تھا کہ وہ اس حملہ کے بعد پاکستانی قوم کو شیعہ و سنی میں تقسیم کر لیں گے یا پاکستان میںکوئی فرقہ وارانہ تعصب پھیلا کر شر پسندی کی جا سکے گی وہ بھی مکمل ناکام نظر آئے ، پاکستان کے تمام مکاتب فکر کی قیادت اور عوام نے قومی یکجہتی اور سلامتی کو مقدم رکھتے ہوئے کسی بھی قسم کے اختلاف کو مسترد کر دیا۔
ایران پاکستان کے تعلقات اور اس جارحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ ہوا کہ جواب موثر دیا جائے گا لیکن اس میں کسی بھی سویلین یا ایرانی کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا بلکہ نشانہ ان کیمپوں اور دہشت گردوں کو بنایا جائے گا جو پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں اور ان کا تعلق BLAیا BLF یا اس طرح کی دہشت گرد تنظیموں سے ہو گا۔ پاکستان کی مسلح افواج نے ان کیمپوں کو نشانہ بنا کر دو ٹوک اور واضح جواب دے دیا کہ پاکستان کی سلامتی خط احمر ہے اگر کوئی پاکستان کی حدود کو کراس کرے گا تواسے جواب تو ملے گا۔
پاکستان کے جواب کے بعد ایرانی قیادت کی طرف سے یہ تسلیم کیا گیا کہ پاکستان کا نشانہ کوئی ایرانی نہ تھے بلکہ غیر ایرانی تھے ، ایرانی قیادت نے پاکستان کے جواب کے بعد رابطوں کا سلسلہ شروع کیا تو رابطوں کے جواب میں پاکستان کے نگراں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد ایک ہی جواب تھا کہ ایران ہمارا پڑوسی ملک ہے ، ہمارا اسلامی بھائی ہے ، غزہ کی صورتحال ہمارے سامنے ہے اور یہ وقت متحد ہو کر اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کا ساتھ دینے کا ہے ، لیکن ہم اپنی سلامتی اور دفاع سے غافل نہیں اور نہ ہی کسی کو اس طرح کی اجازت دے سکتے ہیںکہ وہ پاکستان کی سلامتی سے کھیلے۔
ایرانی قیادت کے رابطوں کے بعد پاکستان نے تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے مثبت جواب دیا ہے ، توقع اور امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں اس طرح کا کوئی سانحہ دوبارہ نہیں ہو گا ، بلا شبہ پاکستان کی سیاسی ، عسکری قیادت بالخصوص پاکستان کی مسلح افواج ، سلامتی کے اداروں نے چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل حافظ سید عاصم منیر کی قیادت میں خطہ اور عالم اسلام کو ایک خوفناک صورتحال سے نہ صرف بچا لیا بلکہ فلسطین کی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے معاملہ کو جلد حل کرنے کی طرف قدم بڑھا کر اس کیفیت سے بھی دنیا کو نکال لیا جس سے غزہ سے ساری توجہ ہٹ کر پاکستان ایران کی طرف ہو گئی تھی ۔حقیقت یہی ہے کہ اس وقت پوری دنیا کی توجہ غزہ کے مظلوموں کی طرف ہونی چاہیے اور یہی بطور مسلمان اور انسان سب کی ذمہ داری ہے اور پاکستان کی قیادت بھی نہ صرف یہی چاہتی ہے بلکہ عملی طور پر بھی ایسا ہی کر رہی ہے ۔ امید یہی کی جا رہی ہے کہ ایران ، پاکستان کے تعلقات نارمل حالات کی طرف جائیں گے اور صورتحال بہتر ہو گی اور مستقبل میں دوبارہ ایسا کوئی سانحہ نہیں ہو گا۔