جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی-ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ہم دین اسلام کو اقتدار میں لانے کو مقدس جہاد سمجھتے ہیں۔
سکھر میں جلسے سے خطاب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سندھ میں آکر ہمیشہ محبت پائی، جب ہم سیاسی طور پر کمزور تھے تو یہاں کے عوام کو نہیں بچا سکتے تھے۔
انہوں نے کہا مگر اب ہم کہتے ہیں اگر اس دھرتی پر غریب کو ٹیڑھی آنکھ سے بھی کسی نے دیکھا تو اُس کی آنکھ نکال دیں گے، ٹانگ توڑ دیں گے۔
جے یو آئی سربراہ نے مزید کہا کہ جب ہم الیکشن میں حصہ لیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ کرسی کی جنگ لڑ رہے ہیں، حقیقت میں کرسی اور مفادات کی جنگ تو آپ لڑتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم اسے مقدس جہاد سمجھتے ہیں، دین اسلام کو اقتدار میں لانا ہے، ہم نے کٹھن سفر طے کیے ہیں، اس راستے میں ڈاکٹر خالد جیسے کا خون کا نظرانہ پیش کیا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے یہ بھی کہا کہ ہم نے انسانی حقوق، بہتر معیشت اور بہتر روزگار کی جنگ لڑی ہے، کوئی بہتر روزگار مغربی ممالک میں تو کوئی سوشل ازم میں تلاش کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بحیثیت قوم ہمیں سوچنا ہوگا ہم کہاں بھٹکے ہوئے ہیں، کدھر جارہے ہیں، جب نعمتوں کی ناشکری کی جائے تو اللّٰہ دو طرح کا عذاب لاتا ہے، ایک بھوک اور دوسرا بدحالی۔
جے یو آئی سربراہ نے کہا کہ میں پوچھتا ہوں کیا سندھ میں امن و امان ہے؟ کیا یہاں قتل نہیں ہوتے؟ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ یہاں ظلم ہے، ایک طبقہ سوچتا ہے میں جو چاہوں کروں۔
اُن کا کہنا تھا کہ باہر سے لاکر فتنے مسلط کیے جائیں تو کوئی لڑے یا نہ لڑے جے یو آئی (ف) سامنے کھڑی ہوگی، قوم کو سچ بتایا جائے، کیوں قوم کے سامنے جھوٹ بولا جاتا ہے؟
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کشمیر کو بیچنے آئے تھے بیچ ڈالا، معیشت تباہ کرنے آئے تھے وہ تباہ کردی۔ آج اگر مکافات عمل کا شکار ہیں تو ان کےلیے ہمدردی کی باتیں ہو رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 25 ہزار سے زائد فلسطینی جنگ میں شہید ہوچکے، پوچھتا ہوں کہاں ہیں انسانی حقوق کی تنظیمیں، ہم سے اچھا تو جنوبی افریقہ ہے جو فلسطین کے مسئلے پر عالمی عدالت میں گیا۔
جے یو آئی سربراہ نے کہا کہ فلسطین کے معاملے پر آپ کی سیاسی جماعتیں کہاں ہیں؟ جب بھوک آتی ہے تو یہ خاموش ہوجاتے ہیں، ظلم کے ساتھ یہ کھڑے ہوتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ جب یہ ظالم کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں تو ووٹ کے کس طرح مستحق ہوجاتے ہیں؟ اب عوام کو نئے انداز سے نئے مستقبل کو تلاش کرنا ہوگا۔