ترتیب: ثقلین کاظمی
صفحات: 338، قیمت: 1200روپے
ناشر: ترتیب پبلی کیشنز، 2۔ شاہ راہِ ایوانِ تجارت، لاہور۔
مشیر کاظمی ایک شخصیت نہیں، ایک عہد کا نام ہے۔ ان کا شمار اپنے دَور کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا تھا۔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے، لیکن قومی و ملی نغموں اور فلمی گیتوں نے بھی اُنہیں بے پناہ شہرت و مقبولیت عطا کی۔ سانحۂ مشرقی پاکستان کے حوالے سے اُن کی شاعری ایک محبِ وطن اور سچّے پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ ان کی تقدیسی شاعری کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بقول شعیب بن عزیز’’ کربلا اور پاکستان‘‘ مشیر کاظمی کی شاعری کے بنیادی حوالے ہیں۔
مشیر کاظمی نے پاکستان اور بھارت کی جنگوں کے دوران روح گرما دینے والے جو ملّی نغمے لکھے، اُن میں’’ اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو، سرفروشوں کو سلام، بازوئے خیبر شکن اور چھے ستمبر کے چاند نے دیکھا‘‘، آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ مشیر کاظمی نے جرائد بھی نکالے اور فلمیں بھی بنائیں۔ لاتعداد فلمی گیت لکھے۔مثلاً ’’چاندنی راتیں، تم زندگی کو غم کا فسانہ بناگئے، شکوہ نہ کر، گلہ نہ کر، لال میری پت، کندھا ڈولی نوں دے جائیں ویر وے اور زمانے میں رہ کر رہے ہم اکیلے‘‘، کیا کبھی ان گیتوں کو فراموش کیا جاسکتا ہے۔
غالباً مشیر کاظمی کی زندگی میں اُن کی کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی۔بعدازاں صاحب زادے، سبطین کاظمی (مرحوم) نے ’’چشمِ بصیرت‘‘ کے نام سے اُن کی مقبول نظموں کا( مناقب، سلام اور مرثیوں پر مشتمل) مجموعہ شایع کیا۔ اب زیرِ نظر کلّیات، اُن کے دوسرے صاحب زادے ثقلین کاظمی نے نہایت محبت سے شائع کیا ہے اور یہ اُن کی سعادت مندی ہے، ورنہ کئی بڑے شعراء کی اولاد کو یہ سعادت نصیب نہیں ہوئی۔ اُنہوں نے اس کتاب کو ایک دستاویز بنادیا ہے۔اس میں53 قومی نظمیں، 10مناقب، سلام اور مرثیے، جب کہ 48شاہ کار فلمی نغمے شامل ہیں۔
مشیر کاظمی ایک حسّاس عوامی شاعر تھے اور اُن کے شعری لہجے میں ایک انقلابی طاقت تھی۔آغا شورش کاشمیری، الطاف حسین قریشی، مجیب الرحمان شامی، عطاء الحق قاسمی، امجد اسلام امجد، شعیب بن عزیز اور ناصر زیدی جیسے مستند قلم کاروں نے اُن سے متعلق مضامین تحریر کرکے کتاب کے وقار میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ یاد رہے، مشیر کاظمی کا خاندانی نام، مشیر حسین کاظمی تھا۔ وہ قصبہ بنوڑ (پٹیالہ) میں22اپریل1924ء کو پیدا ہوئے اور 8 دسمبر1975ء کو وفات پائی، جب کہ موہن پورہ قبرستان، لاہور میں مدفون ہیں۔