• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ تیس برس میں دنیا بھر کے اہل دانش و تحقیق نے وطن عزیز کے بارے میں سینکڑوں کتابیں لکھی ہیں اور شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہو جو منفی زاویے نہ لیے ہو۔ ایک غریب ملک میں ایسی دلچسپی بذات خود قابل تشویش ہے۔ چند اشاریے دیکھئے۔ آٹھ لاکھ بیاسی ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر پچیس کروڑ نفوس آباد ہیں جن کی شرح خواندگی 59 فیصد اور فی کس آمدنی 1470 ڈالر ہے۔ انسانی ترقی کی درجہ بندی میں پاکستان 161ویں نمبر پر ہے۔ سرد جنگ میں مذہب کے نام پر دہشت گردی کے پس و پیش میں پاکستان کا نقش قدم نمایاں رہا ہے۔ سرد جنگ ختم ہوئے تین دہائیاں گزر گئیں۔ ہمارے ملک میں از کار رفتہ ہتھیاروں سے قوم کی قسمت اور عوام کے مستقبل سے کھلواڑ جاری ہے۔ ناگفتنی سے قطع نظر صرف یہ جان لیجیے کہ معاشی بدحالی کے گرداب میں گرفتار پاکستان کی عسکری قوت کا عالمی درجہ 2020ء میں پندرہواں تھا اور 2023ء میں ساتویں نمبر پر آ پہنچا ہے۔ ہم تو حشرات الارض ہیں۔ کسی غیر جانب دار ذریعے سے ملکی سیاست اور معیشت پر خود کو حرف آخر سمجھنے والے اہل حکم کی ذہنی قدر پیمائی کروا لیجئے۔

2011 میں سامری کا ایک بچھڑا تخلیق کر کے قوم کو سجدہ تعظیمی کا حکم دیا تھا۔ اس انوکھی تخلیق نے قوم کو سینگوں پہ رکھ لیا۔ اب تقاضا ہے کہ تازہ واردان بساط کو اتالیق تسلیم کیا جائے۔ بے یقینی کی دھند میں آئندہ عام انتخابات کے لئے سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور جاری کئے ہیں۔ جیسی ہماری انتخابی مشق کی تاریخ ہے، انتخابی منشور کی روایت بھی ایسی ہی ’درخشاںـ ـ‘ہے۔ البتہ مسلم لیگ نواز کے منشور میں ایک نکتے پر ’گرجے ہیں بہت شیخ سر گوشہ منبر‘۔ طالبان کے ایک کھلے حامی نے لکھا ہے کہ ’مسلم لیگ نوازآئین کی اسلامی شقوں کی مخالف ہو گئی ہے‘۔ نیز یہ کہ مسلم لیگ نواز سیکولر اور لبرل جماعت ہو گئی ہے۔آفرین ہے ان پر جو 80 برس میں سیکولرازم اور الحاد کا فرق نہیں جان سکے۔ صحافی کے واویلے پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے گرہ لگائی ہے کہ ’آرٹیکل 62، 63 کو ختم کرنے کے ن لیگ کے وعدے خواب ہی رہیں گے‘۔ جماعت اسلامی انتخاب سے قبل ایسی درفنطنی چھوڑنے کی روایت رکھتی ہے۔ 1970ء میں ’زبان گدی سے کھینچنے‘ کی دھمکی دی تھی۔ 2013ء کے انتخاب سے پہلے منور حسن نے فرمایا تھا۔ ’جنہیں لبرل بننے کا شوق ہے، وہ اپنا نام اقلیتوں میں درج کروائیں‘۔ اب آئین کی شق 62، 63 میں آمر ضیاالحق کے ایزاد کردہ حصوں کو بزعم خود اسلامی قرار دے دیا ہے۔

جنرل ضیاالحق نے 12اگست 1983ء کو 1985ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات کا اعلان کیا۔ قبل ازیں 31 جولائی 1983ء کو ظفر احمد انصاری کمیشن سیاسی جماعتوں کو ’غیر اسلامی‘ قرار دے چکا تھا۔ یہ دعویٰ دستور کی اسی شق 17 کے منافی تھا جسے آج تحریک انصاف نے اپنی ڈھال بنا رکھا ہے۔ 1985ء کے انتخابات سے قبل ضیا الحق نے 19 دسمبر 1984ء کو ایک جعلی ریفرنڈم کے ذریعے خود کو پانچ برس کے لیے ملک کا صدر قرار دے دیا۔ 25 فروری کو انتخابات کے بعد خود ساختہ صدر نے 2 مارچ 1985ء کو آر سی او جاری کیا جس میں آئین کی 65 شقیں تبدیل کر کے پارلیمانی دستور کو صدارتی نظام بنا دیا۔ اسی آر سی او میں پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے اہلیت اور نااہلیت کے معیارات بھی تبدیل کئے گئے۔ قبل ازیں رکن پارلیمنٹ ہونے کے لیے صرف شہریت اور کم از کم عمر کی قید تھی۔

نااہلی کے معیارات بھی قابل تصدیق تھے مثلاً ذہنی اختلال، دیوالیہ ہونا یا سرکاری اہلکار ہونا وغیرہ۔ ضیاالحق نے ان شقوں میں ایسے اضافے کیے جو قابل تصدیق ہی نہیں تھے۔ منتخب نمائندوں کے لیے جو شرائط مقرر کیں، انہیں کسی عدالت میں پرکھا نہیں جا سکتا۔ یہی دیکھ لیجئے کہ ’نظریہ پاکستان ‘کی مخالفت نااہلی کی وجہ قرار پائی۔ دستور میں نظریہ پاکستان کی کوئی تعریف موجود ہی نہیں۔ ’اسلامی احکامات کا پابند ہونا‘۔ اس شرط کی من مانی تشریح کی جا سکتی ہے کیونکہ تمام مذہبی مسالک کے قدما ایک دوسرے کو اسلامی احکامات سے ’انحراف ‘ کا مرتکب ٹھہرا چکے ہیں۔ یہ شرائط دراصل سیاسی قیادت کو غیر سیاسی قوتوں کا یرغمالی بنانے کا ہتھیار ہیں۔ 23 مارچ 1985ء کو نئی اسمبلی وجود میں آئی تو ضیاالحق نے مارشل لا اٹھانے کے لیے آٹھویں آئینی ترمیم کی شرط رکھ دی۔ کل دو مقاصد تھے۔ آٹھ سالہ آمریت کے تمام احکامات اور اقدامات کو جواب دہی سے مستثنیٰ قرار دینا اور آر سی او کو آئین کا باقاعدہ حصہ بنانا۔ 188 بے بس ارکان اسمبلی نے 16اکتوبر 1985ء کو رات ساڑھے گیارہ بجے آٹھویں آئینی ترمیم منظور کر لی۔ البتہ 46 ارکان اسمبلی ایوان سے غیر حاضر تھے۔ محترم صحافی فاروق عادل نے میاں طفیل محمد سے آٹھویں ترمیم کی حمایت کا سبب پوچھا تو میاں طفیل مرحوم نے فرمایا کہ ہم نے اس ترمیم کی قیمت قرارداد مقاصد کو دستور کے متن کا حصہ بنا کر حاصل کی ہے۔

آج پاکستان میں دایاں بازو اسی قرارداد مقاصد کے بل پر اچھلتا ہے۔ ارکان اسمبلی کی اہلیت اور نااہلیت کا تاوان 2017ء میں میاں نواز شریف نے ادا کیا اور آج عمران خان بھگت رہے ہیں۔ مسلم لیگ نواز سیکولر ہوئی یا نہیں، یہ مسلم لیگ کی قیادت کو معلوم ہو گا لیکن دستور کی 62 اور 63 شقوں کو اصل حالت میں بحال کرنا شفاف جمہوریت کی طرف پیش قدمی کا اعلان ہے۔ اسے 62، 63 ختم کرنے سے تشبیہ دینا ایسا جھوٹ ہے جو جماعت اسلامی اور اس کے ہرکاروں ہی کو زیب دیتا ہے۔ 2010ء میں اٹھارہویں آئینی ترمیم پر بحث کے دوران 62، 63 تبدیل کرنے کا معاملہ اٹھا تھا لیکن مولانا فضل الرحمان اور دیگر قدامت پسند وں کی مخالفت کے باعث دستور سے آمریت کا یہ کچرا خارج نہ کیا جا سکا۔ 8 فروری کو عام انتخابات میں آئندہ حکمرانی کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے لیکن مسلم لیگ نواز کے منشور میں شامل ان نکات کو غیر اسلامی قرار دینا مذہبی ریاکاری کی بدترین مثال ہے اور دراصل آمرانہ تاریخ کے لاشے کو کندھا دینے کے مترادف ہے۔

تازہ ترین