• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قائم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10سال قید بامشقت کی سزا سنا دی۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے زبانی مختصر فیصلہ سنایا۔اس موقع پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 342 کا بیان کمرہ عدالت میں ریکارڈ کرنے کیلئے سوالنامہ دیا گیا۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے بیان دیا کہ ہمارے وکلاء موجود نہیں ہم کیسے بیان ریکارڈ کرائیں گے؟جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ آپ کے وکلاء حاضر نہیں ہو رہے، آپ کو اسٹیٹ ڈیفنس کونسل فراہم کی گئی۔وکلائے صفائی نے سوال کیا کہ ہم جرح کر لیتے ہیں۔جج نے وکلائے صفائی سے کہا کہ آپ نے مجھ پر عدم اعتماد کیا ہے۔واضح رہے کہ عدالت نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے وکلاء کو جرح کا موقع دیا تھا۔فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی، اسٹیٹ کونسل،عمران خان کی بہنیں، شاہ محمود قریشی کے اہلِ خانہ، میڈیا کے نمائندے اور عام افراد بھی کورٹ روم میں موجود تھے۔

یاد رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے امریکا میں پاکستانی سفیر کے مراسلے یا سائفر کو بنیاد بنا کر اپنی حکومت کے خلاف سازش کا بیانیہ بنایا تھا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت کے خاتمے میں امریکا کا ہاتھ ہے۔یہ ان دنوں کے معاملات ہیں جب عمران خان کے خلاف بطور وزیراعظم عدم اعتماد کی تحریک پیش ہو چکی تھی۔عمران خان نے جلسہ عام میں سائفر کی کاپی لہراتے ہوئے اسے اپنی حکومت گرانے کی سازش قرار دیا تھا۔یہ معاملہ 2 دفعہ نیشنل سیکورٹی کمیٹی میں پیش کیا گیا۔ پہلی مرتبہ عمران خان خود وزیراعظم تھے۔ دوسری مرتبہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد شہباز شریف وزیراعظم تھے۔

خصوصی عدالت کی طرف سے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سنائی گئی سزا پر سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ ان کے خیال میں یہ سزا قانونی ہے۔ نیشنل سکیورٹی کے معاملات پر کو تاہی نہیں برتی جا سکتی، ملکی سا لمیت کے معاملات کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا۔تحریک انصاف کے رہنما اور کئی کیسز میں پارٹی اور عمران خان کے وکیل علی ظفر کی طرف سے اس فیصلے پر رد عمل میں کہا گیا کہ یہ کیس کی سماعت نہیں تھی عدالتی نظام سے ایک فریب تھا۔یہ سزا ٹھوس شہادتوں اور مصدقہ دستاویزات کی بنیاد پر قانون کے مطابق سنائی گئی ہے جس پر سیاست کی بادی النظر میں کوئی گنجائش نہیں نکل سکتی تاہم ملزمان کے پاس سزا کے خلاف اپیل کے2عدالتی پلیٹ فارم موجود ہیں۔ ہائی کورٹ میں اس فیصلے کو چیلنج کیا جا سکتا ہے وہاں بھی سزا برقرار رہتی ہے تو سپریم کورٹ میں معاملہ لے جایا جا سکتا ہے۔

سائفر کیس میں پی ٹی آئی قائد عمران خان اور نائب قائد مخدوم شاہ محمود قریشی کو ملنے والی قید کی سزائوں پر آپ چاہے جو مرضی پروپیگنڈہ اور سیاست کرلیں،اس فیصلے کی بنیاد پر بہرحال ثابت ہو چکا ہے کہ عمران خان نے ملکی اور قومی مفادات بطور وزیراعظم افشا نہ کرنے کےاپنے آئینی حلف کی خلاف ورزی کی اور مخدوم شاہ محمود قریشی بطور وزیر خارجہ عمران خان کے سائفر کو لہرا کر پبلک کرنے کے جرم میں باضابطہ طور پر شریک جرم قرار پائے ہیں اور مستوجب سزا ٹھہرے ہیں۔ سیاست اپنی جگہ مگر پی ٹی آئی کے قائدین، عہدیداروں اور عمران خان کے وکلاء اور عزیز و اقارب کو بھی عمران خان سے سرزد ہونیوالے اس جرم کی سنگینی کا ادراک تھا چنانچہ عمران خان کی بہن علیمہ خان نے 2 ماہ پہلے ہی پروپیگنڈا شروع کر دیا تھا کہ سائفر کیس میں عمران خان کو عمر قید یا سزائے موت ہو سکتی ہے۔ چاہے انہوں نے عمران خان اور پی ٹی آئی کیلئے عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کی خاطر پروپیگنڈے کا آغاز کیا۔ مزید جرم یہ کیا کہ انہوں نے سائفر کو سرے سے غائب ہی کر دیا جو سیدھا سیدھا چوری کا کیس ہے۔ اس فیصلے کے سیاسی پہلوئوں کو مد نظر رکھا جائے تو5 سال قبل کی صورتحال سامنے آتی ہے جب انتخابات ہونے والے تھے میاں نواز شریف اور مریم نواز کو اسی دوران انتخابات سے عین پہلے سزائیں سنائی گئی تھیں۔ انتخابات سے قبل، انتخابات کے دوران اور انتخابات کے بعد بھی نواز شریف اور مریم نواز زیر حراست تھے۔ان انتخابات سے ہی پی ٹی آئی کو اقتدار کی منزل حاصل ہوئی تھی۔ اسے مکافات عمل کہہ لیں یا تاریخ کا اپنے آپ کو دہرانا کہ آج عمران خان کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔

قارئین گزشتہ چند ماہ سے میں UKمیںہوں ۔یہاںہر پاکستانی وطن عزیزکے متعلق تشویش کا اظہار کرتا اور پوچھتا ہے کہ پاکستان کاکیا ہوگا اور پاکستان سے مسلسل مایوس کن خبریں پریشان کر رہی ہیں اور مسلسل پی ٹی آئی کے خلاف یکطرفہ کارروائی جاری ہے وہ اس کو بہت بُری نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ہماری عدلیہ کے اوپر اب نشان لگ چکا ہے اور خصوصاً یہ جو سائفر کیس میں سزائیں سنائی ہیں یہ تو وہ جج ہے جس نے کبھی کسی کو نہیں بخشا اور کسی کی سزا پر آج تک عمل بھی نہیں ہوا ۔ عوام بہت پریشان ہیں کہ الیکشن سر پر ہیں ایک ہفتہ بھی باقی نہیں ہے یہ اوپر تلے سزا سنانے کا کیا مقصد ہے ؟ اور اس سے پی ٹی آئی کی ہمدردی میں مسلسل نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا کے سیاسی حلقوں میں اضافہ ہوا ہے اور دوسرے سیاستدان بُری طرح بے نقا ب ہوئے ہیں جن کوکرپشن کے کیسوں میں سزا ہونے کے بعدبھی سزا نہیں دی گئی ۔بہرحال اب بھی وقت ہے آزادانہ،منصفانہ الیکشن کراکے پاکستان کا نام روشن کریں ورنہ جب انٹرنیشنل آبزور آئیں گے اور دیکھیں گے کہ یہ یکطرفہ کارروائی ہےتو وہ کھل کر مذمت بھی کریں گے اور بے نقاب بھی کریں گے۔

تازہ ترین