• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر آپ اپنے بچے کی پچاس ہزار روپے ماہانہ اسکول فیس ادا کررہے ہوں اور آپ کسی دن بچوں کی تعلیمی کارکردگی جانچنےکیلئے اسکول چلے جائیں اور وہاں داخلی گیٹ پر آپ کے جوتے اتر والیے جائیں اور آپ کو ایک چپل پہننے کو کہا جائے جو آپ کو ساتھ ہی لانی تھی ، پھر چند قدم کے بعد بالائی منزل کی سیڑھیوں پر آپ کا اکلوتا بیٹا سیڑھیوںپرجھاڑو کے بعد پوچا لگاتا نظر آجائے تو آپ کی کیا حالت ہوگی ؟صرف اتنا ہی نہیں مزید آگے بڑھیں تو آپ کو اپنی معصوم سی بیٹی ایک کونے میں لگے نلکے کے نیچے بچوں کے جھوٹے برتن دھوتی نظر آجائے تو آپ کی حالت کیا ہوگی ؟ مجھے یقین ہے کہ پاکستان میں ایسے منظر دیکھنے کے بعد کسی بھی باپ کی غیرت جاگ سکتی ہے اور معاملہ خون خرابے تک پہنچ سکتا ہے ،مجھے اکثر جاپان میں ایسے مناظر کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب میں بچوں کے اسکول جاتا ہوں تو وہاں اکثر مجھے اپنے بچے دوسرے بچوں کے ساتھ صفائی ستھرائی کرتے نظر آتے ہیں لیکن جاپان میں اسے تعلیم کے ساتھ تربیت کا حصہ سمجھا جاتا ہے جہاں اسکولوں میں ہر روز چالیس منٹ کا ایک پیریڈ صفائی ستھرائی کا ہوتا ہے اور ہر روز بچوں کو اسکول کے مختلف حصوں کی صفائی کی ذمہ داری دی جاتی ہے ،اسی تربیت کے نتیجے میں جاپانی قوم ایک صاف ستھری اور صفائی پسند قوم بن چکی ہے ، جس کی اہم مثال فٹبال ورلڈ کپ کے وہ میچز ہیں جن کے اختتام پر جاپانی شہری ایک تھیلا لیکر اسٹیڈیم سے گندگی صاف کرتےہیں اور پھر پوری دنیا میں انکے چرچے ہوتے ہیں، جاپان میں گھروں میں جوتے لانا برا سمجھا جاتا ہے گھر کے افراد گھر میں داخلے کے بعد جوتے اتار کر ایک طرف رکھتے ہیں جس کے بعد گھریلو استعمال کی چپل یا سلیپر پہن کر گھروں میں داخل ہوتے ہیں ، عموماََ گھروں کے ٹوائلٹس میں پرفیومز رکھے ہوتے ہیں ،اس وقت جاپانی ٹوائلٹس دنیا کے بہترین ٹوائلٹس مانے جاتے ہیں ، یہاں کموڈ کو واش لیٹس بھی کہا جاتا ہے پوری دنیا میں جاپان جیسے واش لیٹس کسی اور ملک میں دستیاب نہیں ، ان واش لیٹس کی سیٹیں سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں جبکہ ان واش لیٹس کے ذریعے لوٹے کے استعمال کی ضرورت باقی نہیں رہتی اس میں ہر چیز الیکٹرانک بٹن کے ذریعے کنٹرول کی جاسکتی ہے ،حتیٰ کے دنیا کے واحد سیون اسٹا ر ہوٹل برج العرب میں بھی جاپانی طرز کے واش لیٹس موجود نہیں ہیں ،بہر حال بات ہورہی تھی صفائی کی قومی عادت کی ، جاپان میں اسکولوں میں بچوں میںکڑھائی ، سلائی ، میوزک اور اسپورٹس پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے ، تو جناب جس قوم میں بچپن سے صفائی ستھرائی اور تعلیم و تربیت کو اہمیت دی جاتی ہو ،جہاں تعلیم کے ساتھ کھیل کود بھی برابر کی اہمیت رکھتے ہوں ، وہ قوم جاپانی قوم کی طرح صفائی پسند ، ایماندار اور ترقی یافتہ قوم کہلاتی ہے ،اب آتے ہیں اپنے ملک اور قوم کی جانب ، تو حال ہی میں ہونے والے سروے میں کراچی کو ملک کا گندہ ترین شہر قرار دیا گیا ہے ،ویسے تو یہ ان حکمرانوں کے لیے یہ شرم کا مقام ہے جو گزشتہ پندرہ سال سے کراچی پر مسلط ہیں اور کراچی کو گندہ اور بوسیدہ کرکے دوبارہ عوام سے حکومت میں آنے کے لیے ووٹ مانگ رہے ہیں ،مجھے سندھ حکومت کی اہم شخصیت نے بتایا کہ کراچی کے مسائل کو حل کرنا کوئی آسان کام نہیں کیونکہ یہ مسئلے بہت زیادہ الجھ چکے ہیں ، اس وقت واٹر بورڈ کے بجٹ کا صرف تیس فیصد پانی کی تقسیم پرخرچ ہوتا ہے جبکہ ستر فیصد بجٹ کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے ، واٹر بورڈ میں ہزاروں کی تعداد میں گھوسٹ ملازم ہیں جو صرف تنخواہ لیتے ہیں کام نہیں کرتے ، یہی حال کے ایم سی کا ہے کیونکہ آٹھ ہزار خاکروبوں میں سے تقریباََ پانچ ہزار خاکرو ب بڑے سرکاری افسروں اور سیاستدانوں کے بنگلوں میں ذاتی ملازم کی طرح نوکری کرتے ہیں ، اگر یہ آٹھ ہزار خاکروب روز آٹھ گھنٹے شہر میں صفائی ستھرائی کا اپنا اصل کام کریں تو کراچی چند دنوں میں صاف ہوسکتا ہے ،پھر کے ڈی اے اور سندھ بلڈنگ کنٹرول کے بارے میں عام تاثر ہے کہ یہ کرپٹ ترین ادارے ہیں ،لہٰذا مستقبل قریب میں کراچی سے گندہ ترین ہونے کا ریکارڈ کوئی اور شہر نہیں چھین سکے گا ، اگر واقعی پاکستان کو صاف ستھر ا ملک بنانا ہے تو جاپان سے سیکھنا پڑے گا جس کی ابتداء کے لئے ضروری ہے کہ کم از کم ہر سرکاری اور نجی اسکولوں میں چالیس منٹ کا صفائی کا پیریڈ شامل کردیا جائے تاکہ قوم گراس روٹ لیول پر صفائی ستھرائی کی عادی بن سکے ،ویسے بھی ہمارے لیے تو صفائی نصف ایمان ہے۔

تازہ ترین