مصنّف: شاہ مصباح الدین شکیل
مجموعی صفحات: 1296، قیمت: درج نہیں
ناشر: پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی لمیٹڈ، پی ایس ہاؤس، خیابانِ اقبال، کلفٹن، کراچی۔
شاہ مصباح الدّین شکیل(مرحوم) پی ایس او سے وابستہ تھے۔ اُنھوں نے’’نشاناتِ ارضِ نبویﷺ‘‘ اور’’ نشاناتِ ارض القرآن‘‘ سمیت کئی کتب تحریر کیں، تاہم اُن کی تصنیف’’سیرت احمدِ مجتبیٰ ﷺ‘‘نے زیادہ شہرت پائی، جو اِسی کمپنی نے 1986ء میں پہلی بار شایع کی تھی اور اب اِس کا پانچواں ایڈیشن منظرِ عام پر آیا ہے۔ پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی لمیٹڈ کے مینجنگ ڈائریکٹر اینڈ سی ای او، سیّد محمد طہٰ نے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ’’یہ کتاب مصنّف کی پندرہ برس کی محنت کا نتیجہ تھی۔اِس کا آخری ایڈیشن 1999ء میں شایع کیا گیا تھا۔
اب اسے جدید دَور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے دوبارہ پیش کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔‘‘یہ ترمیم و اضافہ شدہ ایڈیشن غلام محی الدّین کی خُوب صورت خطّاطی اور دِل کش لے آؤٹ کے ساتھ شایع کیا گیا ہے۔ مواد تو ہے ہی بے مثال، طباعت بھی بہت شان دار ہے۔ کتاب کی جِلد اوّل ظہورِ قدسیؐ سے مسجدِ قباء تک، دوسری جِلد قباء سے واقعہ افک تک اور تیسری جِلد غزوۂ خندق سے سفرِ آخرت تک کے حالات و واقعات پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خانؒ، ڈاکٹر جمیل جالبی، سیّد قاسم محمود اور مولانا اسلم شیخو پوری سمیت کئی اہلِ علم، جب کہ دارالعلوم کراچی اور خیر المدارس ملتان جیسے ممتاز دینی اداروں کے جرائد میں اِس کتاب کی تعریف و توصیف کی گئی ہے۔
اِس کتاب کی ایک خُوبی یہ بھی ہے کہ اِس میں عقیدت و محبّت کے ساتھ مستند مواد اور جامعیت کا خیال رکھا گیا ہے۔اِس کی ترتیب و تصنیف میں درجنوں قدیم و جدید کتب سے استفادہ کیا گیا ، جن کی تفصیلات بھی فراہم کی گئی ہیں، تاہم حوالہ جات کی کثرت کسی جھول یا اکتاہٹ کا سبب نہیں بنتی۔ اسلوبِ بیان شگفتہ، عام فہم، لیکن پُروقار ہے،جیسا کہ یہ موضوع متقاضی ہے، یہی وجہ ہے کہ کتاب قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔نیز، مصنّف نے مختلف واقعات کے ذیل میں اختلافی آرا کا بھی ذکر کیا ہے تاکہ قاری کی تمام پہلوؤں تک رسائی ہوسکے۔ پھر یہ کہ ذیلی عنوانات کے لیے خُوب صُورت مصرعوں کے برمحل استعمال نے اِسے ایک ادبی شاہ کار کا بھی رُوپ دے دیا ہے۔
سیرتِ طیّبہؐ پر قلم اُٹھانا کوئی آسان کام نہیں ،کیوں کہ اِس کے لیے قلم کار کا صرف محقّق ہونا کافی نہیں، بلکہ عشق و محبّت سے لبریر دل و دماغ کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جو اِس کتاب میں بدرجۂ اتم نظر آتی ہے۔ جہاں ضرورت محسوس ہوئی، وہاں اہم واقعات کے خاکے اور نقشے بھی دئیے گئے ہیں، جن کی مدد سے اُن واقعات کی تفہیم بہت آسان ہوگئی ہے۔ متن کی صحت، معیار اور استناد کے ضمن میں تو اہلِ علم اِس کتاب کو سندِ قبولیت دے ہی چُکے ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ ناشر نے بھی بہت محنت، دل چسپی، مہارت اور عقیدت و احترام کے ساتھ اِسے شایع کیا ہے۔