• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیارے بودی سرکار آج پھر تشریف لے آئے ہیں۔ الیکشن کی وجہ سے میرے ہاں بھی رش لگا رہتا ہے، لوگ تبصرے کرتے ہیں، اگر بودی سرکار آ جائیں تو یہ بات خطرے سے خالی نہیں ہوتی کہ کہیں لڑائی نہ ہو جائے۔ ان کے مزاج کے خلاف اگر بات کی جائے تو وہ سامنے والے کو تھپڑ رسید کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں، اسی لئے میں با آواز بلند کہہ دیتا ہوں کہ اب بودی سرکار آ گئے ہیں، تمام لوگ خاموش ہو جائیں، بودی سرکار کی باتیں سنیں، اگر کچھ پوچھنا ہو تو ادب کے ساتھ پوچھیں۔ آج بھی رسمی اعلان کے بعد میں نے ملازم سے کہا کہ حقہ تازہ کر کے لاؤ اور ساتھ ہی گڑ والی چائے بھی لے آنا۔ تھوڑی دیر میں حقہ آ گیا، بودی سرکار نے کش لگایا تو چوہدری اللہ رکھا نے پوچھا کہ سرکار پرسوں الیکشن ہیں، کیا بنے گا؟ بودی سرکار گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہنے لگے "اس مرتبہ الیکشن کا رنگ جم نہیں سکا، یہ روکھا سوکھا الیکشن ہے، روایتی جوش و خروش نہیں۔ ابھی تک پکڑ دھکڑ کے سلسلے جاری ہیں۔ پچھلے ڈیڑھ سال سے سرکاری مشینری پوری طاقت کے ساتھ پی ٹی آئی کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ برس سے سرکاری اہلکار کبھی کسی کو اٹھا لیتے ہیں تو کبھی کسی کو۔ اس سلسلے میں نوجوانوں اور بوڑھوں کے علاوہ عورتوں اور بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا بلکہ چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے قریباً دس ہزار کارکن آج بھی جیلوں میں ہیں اور پی ٹی آئی قیادت کے بقول ان کے قریباً چالیس کارکنوں کی جانیں بھی چلی گئیں ۔ گرفتار کارکنوں میں سے اگر کسی کی ضمانت ہو جائے تو کسی اور مقدمے میں گرفتاری ڈال دی جاتی ہے مثلاً صنم جاوید کی کئی مقدمات میں ضمانت ہو گئی مگر رہائی نصیب نہ ہو سکی، نئے مقدمے میں تو انہیں بالکل چھلاوا بنا کے پیش کر دیا گیا ہے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ایک انسان ایک ہی وقت میں پانچ مختلف مقامات پر جلاؤ گھیراؤ کیسے کر سکتا ہے جبکہ مقامات کا آپس میں فاصلہ بھی پانچ پانچ دس دس کلومیٹر ہو۔ 9 مئی کا واقعہ تحقیق طلب ہے، اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں کیونکہ اسی واقعہ کی بنیاد پر پولیس اہلکاروں نے خوب لوٹ مار کی ہے، کئی مخالفین کے گھر توڑے ہیں، کئی لوگوں کو اٹھا کر رقم بٹورنے کے بعد واپس کیا گیا۔ چلیں میں زیادہ لمبی چوڑی باتیں نہیں کرتا، آپ کو تو پتہ ہے کہ اس دوران میڈیا اور وکلاء پر بھی سختیاں کی گئیں، تکلیفوں کی یہ داستان کسی اور دن کے لئے رکھ لیتے ہیں، فی الحال الیکشن کی بات کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی تمام تر بہانے بازیوں کے بعد عدالت کو مداخلت کرنا پڑی اور پھر اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر صدر سے ملاقات کرنے کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوا۔ پرسوں 8 فروری ہے، پرسوں الیکشن ڈے ہے۔ الیکشن شیڈول کے بعد عجیب تماشا لگا ہوا ہے، پی ٹی آئی کے امیدواروں سے کاغذات نامزدگی چھینے جاتے رہے۔ اس کے بعد تجویز کنندہ اور تائید کنندہ اٹھائے جانے لگے۔

انہی دنوں میں ایک لطیفہ بھی ہوا، معروف وکیل امجد پرویز جب میاں نواز شریف کے کاغذات جمع کروانے گئے تو آر او نے نہ صرف انہیں پروٹوکول دیا بلکہ چائے سے خاطر تواضع بھی کی مگر جب یہی امجد پرویز، چوہدری مونس الٰہی کے کاغذات نامزدگی جمع کروانے گئے تو آر او آفس کے باہر ہی سے پولیس اہلکاروں نے حراست میں لے کر ڈالے کے سپرد کر دیا۔ چار پانچ گھنٹے کی حراست کے بعد انہیں کسی بڑی سفارش پر چھوڑ دیا گیا۔ اگلے مرحلے میں کاغذات مسترد کئے جانے لگے، پی ٹی آئی سے نشان بھی چھین لیا گیا جبکہ اے این پی کا نشان بحال رکھا گیا، عجیب الیکشن مہم ہے کہ تمام پارٹیاں جلسے جلوس کر سکتی ہیں مگر تحریک انصاف ایسا نہیں کر سکتی۔ سرکاری مشینری ان کے جھنڈے، پوسٹر، بینر اور جلسے جلوس برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ جاوید ہاشمی اچھی بھلی زندگی گزار رہے تھے جو ہی انہوں نے عمران خان کے حق میں بولنا شروع کیا تو چھاپے شروع ہو گئے پھر ان کے داماد شاہد ہاشمی اور نواسے قاسم کو گرفتار کر لیا گیا۔ پی ٹی آئی والے لیول پلینگ فیلڈ مانگتے رہے اور اس پر الیکشن کمیشن نے آنکھیں بند کئےرکھیں۔ امیدواروں کی گرفتاری کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ کبھی علی اسجد ملہی کو گرفتار کر لیا جاتا ہے تو کبھی چوہدری احسن عباس اور یوسف ایوب خان کو دھر لیا جاتا ہے، ارشد محمود منڈا کی تو جان ہی نہیں چھوٹ رہی، وہ ایک مقدمے سے ضمانت کرواتے ہیں تو دوسرے میں گرفتار کر لیے جاتے ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ الیکشن کمیشن آنکھیں کھولے اور الیکشن ڈے کو خوبصورت بنا دے، لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی آزادی ہو، ایک صاف اور شفاف الیکشن ہونا چاہئے۔ اگر کسی نے الیکشن میں دھاندلی کرنے کی کوشش کی تو اس کے نتائج بڑے بھیانک ہوں گے، حالات کو آگ لگ جائے گی کیونکہ نوجوانوں کو معلوم ہے کہ کونسی جماعت مقبول ترین ہے اور ملک کے نوے فیصد لوگ کس جماعت سے محبت کرتے ہیں۔ اسی لئے میں کہہ رہا ہوں کہ نتائج تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو پاکستان کی اکثریتی آبادی الیکشن کو تسلیم نہیں کرے گی۔ اس لئے کوشش کریں کہ کم از کم الیکشن شفاف ہو جائیں تاکہ ووٹ کا تقدس پامال نہ ہو ورنہ ہر طرف صدائیں آئیں گی نہ وہ باغی نا غدار قیدی نمبر 804 سب کا جگری سب کا یار قیدی نمبر 804

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین