پاکستان میں آج 12ویں عام انتخابات کیلئے ووٹ ڈالے جارہے ہیں۔ ممکنہ نتائج پر قیاس آرائی کرنا تو عبث ہے کیونکہ چند گھنٹوں بعد صورتحال واضح ہو جائیگی۔ سوال البتہ یہ ہے کہ کیا اس بار نتائج سیاسی بندوبست کے عین مطابق ہونگے؟ کیونکہ ماضی میں بیشتر مواقع پر خفیہ اداروں کی رپورٹیں غلط ثابت ہوئیں اور نتائج توقعات کے برعکس آتے رہے۔تحریک انصاف کے وابستگان کا خیال ہے کہ قیدی نمبر 804جیت چکا ہے، پیپلز پارٹی کی قیادت پراُمید ہے کہ آزاد اُمیدواروں کو ساتھ ملا کر حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیگی جبکہ مسلم لیگ (ن) کو یقین ہے کہ موجودہ حالات میں نواز شریف سے بہتر انتخاب کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ تاریخ اور صحافت کے طالب علم کی حیثیت سے میری رائے یہ ہے کہ عمران خان ہار چکا ہے، بس رسمی اعلان ہونا باقی ہے۔ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی نوشتہ دیوار ہے۔ یہ غلط فہمی بھی دورکرلیں کہ حالیہ انتخابات کے بعد مخلوط حکومت بنے گی اور پیپلز پارٹی سمیت پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اس سیٹ اپ میں شامل ہونگی۔ بعض تجزیہ نگار یہ قیاس آرائی کر رہے ہیں کہ حکومت تو مسلم لیگ (ن) کی ہو گی مگر نواز شریف وزیر اعظم نہیں ہونگے، ممکن ہے شہباز شریف سربراہ حکومت ہوں یا پھر یہ منصب مریم نواز شریف کے حصے میں آئے اور میاں نواز شریف خود صدر مملکت کے طور پر سربراہ ریاست کا کردار سنبھال لیں۔ میری دانست میںیہ سب باتیں بے بنیاد اور زمینی حقائق سے کوسوں دور ہیں۔ موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور کمزور سیاسی حکومتوں کے باعث معاشی ترقی و خوشحالی کا خواب پورا نہیں ہو سکا اور پاکستان ہمسائیہ ممالک کی نسبت اس دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا۔ مثال کے طور پر بنگلہ دیش میں جنوری 2009ء سے شیخ حسینہ واجد برسراقتدار ہیں، بھارت میں2014ء سے مودی سرکار کی پالیسیاں چل رہی ہیں جبکہ پاکستان میں 2008ء سے اب تک 6منتخب وزرائے اعظم رخصت ہوچکے اور ساتویں سربراہ حکومت کا انتظار ہو رہا ہے۔ لہٰذا ہمسائیہ ممالک جیسی کارکردگی درکار ہے تو پھر مضبوط، مستحکم اور یک جماعتی حکومت بنانا ہو گی۔ قصہ مختصر،مسلم لیگ (ن) مرکز، پنجاب اور بلوچستان میں حکومت بنائیگی، خیبرپختونخوا میں جمعیت علمائے اسلام (ف)، مسلم لیگ (ن) اور ممکنہ طور پر اے این پی یا جماعت اسلامی کی ملی جلی سرکار بن سکتی ہے جبکہ سندھ کی حکومت بدستور پیپلز پارٹی کے پاس رہے گی البتہ وہ مرکز میں حصہ دار نہیں ہو گی۔ میاں نواز شریف وزیر اعظم ہونگے۔ اگر ہنگامی اور غیر متوقع صورتحال نے سب کچھ درہم برہم نہ کر دیا تو مستقبل کامنظر نامہ کم و بیش یہی ہوگا۔
لیکن کچھ گتھیاں ابھی تک سلجھنے میں نہیں آ رہیں۔ مثلاً توقعات کے مطابق نتائج آنے اور حکومت بن جانے کے بعدکیا ہوگا؟کم یا زیادہ مگر تحریک انصاف کی مقبولیت ایک حقیقت ہے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو طاقت کے زور پر وقتی طور پر تو دبایا جا سکتا ہے لیکن ہمیشہ کیلئےختم نہیں کیا جا سکتا۔ فی الحال فتح تو کرلیا گیا ہے مگر اذہان وقلوب کو مسخر نہیں کیا جا سکا۔ گھائل کرنے کے بجائے قائل کرنےکیلئے متبادل سیاسی بیانیہ درکار ہوا کرتا ہے جو ابھی تک منصہ شہود پر نہیں آیا۔ جب پانامہ کے ہنگام میاں نواز شریف کی حکومت ختم کی گئی تو تب بھی جیسے تیسے مطلوبہ نتائج حاصل کر لئے گئے تھے لیکن تب کے اور اب کے حالات میں دو بنیادی فرق ہیں۔ ایک تو تب پانچویں پشت کی دوغلی ابلاغی جنگ کے باعث ’’چور اور ڈاکو‘‘ کا بیانیہ سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ دوسرا سیاسی مخاصمت کی اس فضا میں میاں نواز شریف جیسے شخص سے سامنا تھا جو سیاستدانوں کی قطار سے نکل کر مدبروں کی صف میں شامل ہو چکا تھا۔ کسی قسم کے فائول پلے کی توقع نہیں تھی۔ مگر اب عمران خان کی شکل میں ایک ایسے انسان سے واسطہ پڑا ہے جو کسی اصول، کسی قاعدے اور قانون کا پابند نہیں ،جو اپنے مقاصد کے حصول کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ اور پھر بیانیہ بازی میں اسکا کوئی ثانی نہیں۔ کسی بھی رہنما کو طویل عرصہ تک پابند سلاسل نہیں رکھا جا سکتا۔ جس طرح نواز شریف کو رہا کرنا پڑا، اسی طرح عمران خان بھی ایک دن آزاد ہونگے۔ اگر بانی تحریک انصاف کے جیل میں قید ہوتے ہوئے پی ٹی آئی کے بیانئے کو شکست نہ دی جا سکی تو رہا ہونے کے بعد معاملات کو کیسے سنبھالا جا سکے گا؟ان حالات میں ایک مضبوط و مستحکم سیاسی حکومت کے ذریعے معاشی ترقی و خوشحالی کا خواب کیسے پورا کیا جا سکے گا؟ یہ وہ سوال ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
گاہے خیال آتا ہے کہ کیا سیاسی استحکام کی غرض سے ہمارے ہاںبنگلہ دیش ماڈل نافذ کیا جائے گا؟ یعنی جس طرح بنگلہ دیش میں حسینہ واجد نے اپنے سیاسی مخالفین کو نہایت بے رحمی سے کچل ڈالا ،جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکایا گیا،اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیا کو کرپشن کے الزامات میں سزا سنائے جانے کے بعد طویل عرصہ جیل میں رکھا گیا، اسی طرح پاکستان میں بھی 9مئی کے مقدمات میں ملوث افراد کو سخت ترین سزائیں سنا کر مزاحمت کو ختم کردیا جائے گا؟ اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ میاں نواز شریف کی وکٹری اسپیچ پر غور ہورہا ہے اور تجویز یہ ہے کہ 9مئی کو قومی تنصیبات پر حملہ کرنیوالے شرپسندوں کے علاوہ سب کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا اعلان کیا جائے۔ ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنے کا عہد کیا جائے اور جو بات میاں نواز شریف کی اس تقریر میں نہیں ہو گی، وہ یہ ہے کہ سیاسی استحکام کی غرض سے مدت ملازمت میں توسیع کا کڑوا گھونٹ بھی پینے سے گریز نہ کیا جائے۔