• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن کے نتائج تقریباً مکمل ہو چکے ہیں اور ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار بڑی تعداد میں قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہو چکے ہیں۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار خیبر پختونخوا اسمبلی میں مکمل اکثریت حاصل کر چکے ہیں جبکہ قومی اسمبلی میں بھی نو منتخب اراکین اسمبلی میں سب سے بڑا گروپ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے آزاد ممبران کا ہے۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کی کثیر تعداد میں کامیابی سیاسی پنڈتوں کے علاوہ مسلم لیگ ن کے لیے بھی باعث حیرت ہے۔ خصوصاً ان حالات میں جب میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کسی شراکت کے بغیر قومی اور صوبہ پنجاب کی حکومت سنبھالنے کی تیاری کررہے تھے۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن مستحکم ہے تاہم وفاق میں حکومت کا حصول دوسری جماعتوں سے لین دین پر منحصر ہے۔ اگرچہ مسلم لیگی قیادت اور امیدوار الیکشن سے قبل مثبت نتائج کے لیے کافی پر اعتماد نظر آ رہے تھے مگر تحریک انصاف کا ووٹر خاموشی سے 8 فروری کو سرپرائز دینے کی تیاری کر رہا تھا۔ ووٹرز کو متحرک کرنے کے لیے تحریک انصاف کے کارکنوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور موبائل فون استعمال کیے اور اپنے حامیوں کو پولنگ اسٹیشنز تک لانے میں کامیاب رہے جبکہ مسلم لیگ اور دوسری جماعتیں نئے زمانے کے تقاضوں اور ضروریات کو مدنظر رکھنے کے بجائے روایتی طریقوں سے عوام کو اپنے حق میں ووٹ دینے کی ترغیب دیتی رہیں۔

پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا کمپین اس قدر موثر تھی کہ تمام تر وسائل اور حکومتی سر پرستی کے باوجود دوسری تمام سیاسی جماعتیں اس کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہیں۔ میاں نواز شریف جو بہت سوچ سمجھ کر موزوں وقت پر وطن واپس لوٹے تھے اپنے پرانے اور نئے بیانیے کی طرف عام عوام خصوصاً نئی نسل کو راغب کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے، ان کی طرف سے جلسوں اور اشتہاروں میں بتائی گئی گزشتہ کارکردگی اور آئندہ کے وعدے عوام کی اکثریت کو متاثر نہ کر سکے۔ میاں شہباز شریف کی سربراہی میں سولہ ماہ چلنے والی پی ڈی ایم حکومت کے دوران ہونے والی مہنگائی اور یوٹیلٹی بلوں میں بے تحاشا اضافے نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی، جس پر تحریک انصاف نے بلا توقف اس مہنگائی اور مشکلات کا ذمہ دار مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں کو قرار دیا جس کا موثر جواب مسلم لیگی نہ دے سکی حالانکہ اس معاشی انحطاط کی ذمہ دار تمام سابقہ حکومتیں بھی تھیں۔

میاں نواز شریف کو وطن واپسی پر کئی چیلنجز در پیش تھے، صحت کے مسائل ان کی ایکٹیو کمپین میں آڑے آئے، خاندان میں اختیارات اور مستقبل کے ممکنہ رول سے متعلق کشمکش جاری تھی جبکہ پارٹی میں بھی کچھ توانا آوازیں بعض امور پر اختلاف رائے کا اظہار کر رہی تھیں۔ رشتہ داریوں اور ذاتی تعلقات کو نبھانے کے لیے انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم میں بعض غلط فیصلے ہوئے جن کا خمیازہ پارٹی کو بھگتنا پڑا۔ اپنے سابقہ ادوار میں ہوئی ترقی کا کریڈٹ لینے اور اگلے منصب کے لیے میاں نواز شریف میدان میں اترے تو عوام کی اکثریت میں ماضی کی طرح جوش و خروش عنقا تھا اور نوجوانوں کی بڑی تعداد تحریک انصاف کی تبدیلی اور انقلاب کے نعرے میں کشش محسوس کر رہی تھی ۔ مرکزی اورصوبائی نگراں حکومتوں میں میاں نواز شریف سے قربت رکھنے والے بعض وزرا کی شمولیت اور اعلیٰ افسران کی تعیناتی سےعوام میں تاثر قائم ہوا کہ نگراں حکومت سابق حکومت کا تسلسل ہے جو تین ماہ میں الیکشن کروانے کے بجائے طویل مدتی منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ نگراں حکومتوں میں ایسے افراد نامزد ہونے چاہئے تھے جو غیر جانبدار رہنے کا تاثر دیتے اور کسی ایک جماعت کے ساتھ ترجیحی یا انتقامی سلوک روا نہ رکھتے۔ ریاست ایک ماں کی طرح ہوتی ہے جو اپنے بچوں کی غلطیوں کو تاہیوں کی اصلاح کرتی ہے انہیں انتقام کا نشانہ نہیں بناتی اور ہر حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق کا خیال رکھے۔

الیکشن سے قبل تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف مقدمات پر انتہائی تیزی سے سماعت کر کے انہیں طویل سزائیں دی گئیں۔ ان کے نکاح عدت کیس پر جرح اور فیصلے کو تمام حلقوں میں ناپسند کیا گیا اور اس کا ردعمل بھی ووٹنگ کے دوران نظر آیا۔ میاں صاحب عدلیہ کے فیصلوں پر اثر انداز ہرگز نہیں ہو سکتے تھے مگر اپنے مخالف کے لیے ہمدردی کے چند لفظ بول کر وہ ماحول میں تنائوضرورکم کر سکتے تھے جس میں سے ان کو سیاسی فائدہ پہنچتا۔ میاں نواز شریف ایک پرانے منجھے ہوئے سیاستدان ہیں جو سیاسی دائو پیچ بخوبی جانتے ہیں مگر بعض اوقات ان سے منسوب بیانات عوام کے لیے حیرت اور دل آزاری کا سبب بنتے ہیں۔ تحقیقاتی ادارے نیب کو اقتدار میں آ کر ختم کرنے کے میاں صاحب کے اعلان کی ضرورت نہیں تھی، اس اعلان سے انتقامی کارروائی کا تاثر ابھرا، وہ یہ کام اقتدار میں آنے کے بعد بلادقت کر سکتے تھے۔

پنجاب اور مرکز میںحکومت سازی کے لیے مسلم لیگ (ن) اور دوسری جماعتوں کے درمیان مذاکرات اور رابطے شروع ہو چکے جن میں کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر معاملات طے ہوں گے ۔ اقتدار کا ہما تینوں بڑی سیاسی جماعتوں میں سے کسی ایک کے سر پر بیٹھ سکتا ہے اور ان جماعتوں کے سربراہان عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں ضروریات اور خواہشات محدود رہ جاتی ہیں۔ تمام جماعتوں کے قائدین کو چاہیے کہ باہمی رنجشیں بھلا کر ایسے لوگوںکوسامنے لائیں جو ملک اورقوم کی ترقی کے لیے کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہوں۔

(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

تازہ ترین