8 فروری کے یوم انتخاب تک سیاسی مطلع ابر آلود رہا۔کبھی انتخابات کے التوا کی خبریں میڈیا کی زینت بنیں تو کبھی امن و امان کی خرابی کا نوحہ سنا۔ لیکن ان تمام افواہوں کے باوجود آخر کار یوم انتخاب آیا اور عمران خان کا جادو کچھ اس طرح سر چڑھ کر بولا کہ تمام منصوبہ ساز اور تجزیہ کار سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ عوام اپنی مرضی سے گھروں سے نکلے پولنگ اسٹیشنوں پہ آئے اپنی مرضی سے بیلٹ پیپر پر اپنی اپنی پسند کے امیدواروں کے نشان پر مہر لگائی اور ایک اطمینان کیساتھ اپنے گھروں کو واپس روانہ ہو گئے۔ یہ ایسے انتخابات تھے جہاں سب سے مقبول جماعت کا سربراہ اور انکے بہت سے سینئر ساتھی پابند سلاسل تھے۔انہیں ریاست کا باغی اور اخلاق باختہ قرار دلوانے کے لیے جیل میں ہی عدالتیں لگا کر نکاح، طلاق اور عدت جیسے مسائل کی آڑ لیکر ان پر کیچڑ اچھالا گیا اور ایک کے بجائے تین الگ الگ مقدمات میں 31سال قید بامشقت کی سزائیں سنائی گئیں۔ سب سے بڑی عدالت کے حکم پر بیلٹ پیپر سے اسکا انتخابی نشان ہٹا دیا گیا۔ اخبارات، میڈیا پر نام لینے پر پابندی عائد رہی،الیکشن کمیشن اور اعلیٰ عدلیہ نے شاید پاکستان کا آئین بھی اتنی باریک بینی سے نہیں پڑھا ہوگا جتنا تحریک انصاف کا دستور پڑھا،انٹرا پارٹی الیکشن کے نام پر تحریک انصاف کیساتھ وہ ناانصافی کی گئی کہ جس کی ماضی قریب میں مثال نہیں ملتی۔ ماضی کی ایک اور مشق دہراتے ہوئے امیدواروں کو آزاد الیکشن لڑنے پر مجبور کیا گیا ایسے ایسے عجیب و غریب انتخابی نشانات الاٹ کئے گئے کہ سبزیاں، پھل اور اوزار کم پڑ گئے۔ان سب حالات کے باوجود آٹھ فروری کی شام جب بیلٹ بکس الٹائے گئے تو ساتھ ہی پورے ملک میں بہت سے برج بھی الٹ گئے۔ بکسوں سے پرچیوں کے بجائے عوامی غصہ اور انتقام کا ایک شعلہ نکلا جس نے حکمرانوں کے اوسان خطا کر دیے۔اور پھر ہماری تاریخ نے وہ منظر بھی دیکھا کہ چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کی خواہش رکھنے والے بزرگ راہنما وکٹری سپیچ کیے بغیر اپنے گھر روانہ ہو گئے۔ یہ ایسے انتخابات تھے جس میں سیاسی جماعتیں بغیر منشور کے میدان میں اتریں۔ مسلم لیگ نون تو گویا اس خوش فہمی کا شکار تھی کہ ’’ساڈی گل ہو گئی اے‘‘ اس نے اپنا منشور جاری کرنے کا تکلف انتخابات سے محض ایک ہفتہ قبل کیا۔ بلاول بھٹو زرداری واحد سیاسی رہنما تھے جنہوں نے پورے ملک میں ایک منشور کی بنیاد پر اپنی انتخابی مہم چلائی۔اس ماحول میں یوم انتخاب کو کسی قدر شفاف بنانے کیلئے غیر معمولی سختی سے گریز کیا گیا اور پھر وہ ہوا جس کا کسی کو گمان تک نہ تھا۔عمران خان کا جادو کچھ اس طرح سر چڑھ کر بولا کہ نون لیگ کا اپنے گڑھ پنجاب میں تقریبا صفایا ہوتا نظر آیا۔ تحریک انصاف نے خیبر پختون خوا میں ایک بڑا اور واضح مینڈیٹ حاصل کر لیا۔
پنجاب اور وفاق کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔اور اب نون لیگ ایک اصطبل کھولے بیٹھی ہے جس میں گھوڑوں کی تجارت کی مدد سے تمام اخلاقیات پس پشت ڈالتے ہوئے حکومت سازی کا کام سرانجام دیگی۔ 2024ء کے انتخابات میں عمران خان کو اپنی پسند کے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کا موقع نہ مل سکا۔لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ نون کا گڑھ سمجھے جانیوالے سنٹرل پنجاب اور جی ٹی روڈ کے اضلاع نے اپنا سارا وزن تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈال دیا جس کی کسی کو توقع نہ تھی۔اب تک کے جائزوں کے مطابق تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار قومی اسمبلی کی 96نشستوں پر کامیاب ہو چکے ہیں جبکہ پنجاب اسمبلی کی 117نشستوں پر عمران خان کے امیدوار کامیاب نظر آئے ہیں۔ عمران خان کا جادو سرگودھا جیسے ضلع میں بھی چلا جہاں 2018 میں قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں میں سے 4 مسلم لیگ جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی لیکن اس بار بمشکل ایک سیٹ جیت سکی ہے۔ جی ٹی روڈ پر 2013 ء میں مسلم لیگ نون نے 79حلقوں میں سے 72پر کامیابی سمیٹی تھی جبکہ اس بار یہاں سے نصف سے زیادہ سیٹیں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ غیر معروف چہرے جیت چکے ہیں۔اس حقیقت کو مان لینا چاہئے کہ عمران خان کے جادو نے پنجاب میں رجحانات تبدیل کر دیئے ہیں۔ نوجوان ووٹر نے روایتی سیاست کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ دھڑے بندی اور برادری کی روایتی سیاست کمزور ہو گئی ہے۔1985 ء کے غیر جماعتی انتخابات نے جس دھڑے بندی،برادری اور جوڑ توڑ کی سیاست کی بنیاد رکھی تھی حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف نے اسکی جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ ان انتخابات میں تحریک انصاف نے اپنے ووٹر کو غیر روایتی انداز میں رابطے میں رکھا،مشکل وقت میں سوشل میڈیا نے اسے منظر سے غائب نہیں ہونے دیا، ورچوئل جلسے جیسی غیر روایتی سرگرمیاں منعقد کی گئیں۔ پنجاب میں پہلی مرتبہ کسی جماعت کی انتخابی مہم لیڈروں کے بجائے عوام نے چلائی اور عوام نے اپنے چھوٹے چھوٹے گروپ بنا کر ہر حلقے میں اپنے امیدوار کے نشان کو عام آدمی تک پہنچایا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان حالات میں عمران خان کی جماعت کی کامیابی ایک مثال ہے اور روایتی سیاست کے خلاف علم بغاوت ہے۔2024 ء کے انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں پر تحریک انصاف نے تقریبا 444 ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دیا جو پہلی مرتبہ الیکشن لڑ رہے تھے۔ جبکہ پنجاب اسمبلی کے لیے تحریک انصاف نے 77 فیصد نئے امیدواروں کو ٹکٹ دیئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس عوامی مینڈیٹ کا کس حد تک احترام کیا جاتا ہے۔ کیا آزاد امیدواروں کو ''آزاد''رہنے دیا جائے گا؟کیا عوامی مینڈیٹ کے مطابق انتقال اقتدار ہوگا یا پھر طے شدہ منصوبے کے مطابق شب خون مار کر مسترد شدہ جماعتوں کو مسند اقتدار پر بٹھایا جائیگا۔ یہ فیصلہ آنے والے دنوں میں قوم دیکھے گی۔