• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حلف اٹھانے کے چند گھنٹوں کے اندر اندر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، منصور علی شاہ صاحب نے عدلیہ میں اصلاحات لانے اور اسکی فعالیت بہتر بنانے کے اپنے ایجنڈے کا برملا اظہار کردیا۔ اُن جیسے کسی شخص کاپاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا چیف جسٹس مقرر ہوجانا کسی معجزے سے کم نہیں کیونکہ ہم جس دورمیں رہ رہے ہیں، اس میں میرٹ، مہارت، بے لچک دیانت داری، ہر قسم کے دبائو سے بے خوفی اور جدت ِ خیال کو کیرئیر میں ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جاتا ہے ۔ چنانچہ خواب ِ غفلت ، جیسا کہ ہمارے ہاں چھائی ہوئی ہے ، میں ڈوبے رہنے کیلئے ضروری ہے کہ منصور علی شاہ صاحب جیسے با کردار افراد کو عہدوں سے دور رکھا جائے ۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا ’نظام‘ انتہائی کمزور ہے، اور کچھ غیر معمولی صلاحیتیں رکھنے والے افراد ہیں جو اسے متحرک رکھے ہوئے ہیں۔ اپنی صلاحیتوں اور کردار کی سچائی کی بنا پر بے شک جسٹس شاہ صاحب لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر ہونے کے اہل تھے لیکن اُن جیسے بے باک اور روایتی عدلیہ کے چلن سے ناراض شخص کو پنجاب کی عدلیہ کا ہیڈ بنانے کا کریڈٹ بہرحال جوڈیشل کمیشن کو چلانے والے سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو جاتا ہے ، ورنہ ہمارے ہاں ارباب ِ اختیار کی تدبیر یہی رہتی ہے کہ اُن کے ارد گردکمزور اورمعمولی اہلیت رکھنے والے افراد ہی آگے آئیں۔
وکلا کی تحریک نے ہمارے دلوں میں تبدیلی کا جوش پیدا کردیا تھا۔ ہم شاید دوبارہ اتنا طاقتور چیف جسٹس نہ دیکھیں جتنے افتخار محمد چوہدری تھے، پوری قوم اُن کے پیچھے تھی، وکلااُن کے جاں نثار تھے، جج حضرات اور دیگر ریاستی اداروں کے ایگزیکٹو ، حتیٰ کہ اسٹیبلشمنٹ بھی مرعوب تھی، افسران اُن کے سامنے پیش ہوتے ہوئے گھبراتے تھے ۔اگر وہ چاہتے توحقیقی معنوں میں جسٹس سسٹم کو درست کرسکتے تھے، لیکن اُن کا دور کس قدر وقت کازیاں ثابت ہوا، اور وہ سنہری موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ جب جوڈیشل تقرریوں کا وقت آیاتو اُنہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، خواجہ شریف صاحب کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس برقرار رکھا، جبکہ جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس آصف کھوسہ کو براہ ِ راست ترقی دے کر سپریم کورٹ میں لے گئے ۔ یہ دونوں فاضل جج صاحبان غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے اوروہ پنجاب کی عدلیہ کی اصلاح کرنے کی اہلیت رکھتے تھے ۔ بہت سے افراد کو امید تھی کہ چند ماہ بعد جسٹس نثار لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بن جائیں گے اور بطور دوسرے سینئرجج، جسٹس کھوسہ اگلے چند سال بعد چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوسکتے تھے ، اور بطور جوڈیشل کمیشن ممبران، وہ تقرریوں میں میرٹ او ر اصول وضوابط کا خیال رکھتے ۔ ہمارے پاس امید کا دامن تھامے رکھنے کی وجہ موجود ہے۔ شاید اسے آپ درست قسم کی خود اعتمادی (نہ کہ مبہم خود پارسائی) کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ارد گرد بھی ایسے مضبوط کردار کے باحوصلہ افراد موجود ہیں جو ارباب ِ اختیار سے اختلاف کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ جسٹس منصور علی شاہ صاحب، جو کسی کی مصاحبی کرہی نہیں کرسکتے، کی بطور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ تعیناتی ایک ایسی کامیابی ہے جس نے ہمارے چاروں طرف چھائی ہوئی قنوطیت کو شکست دے دی ہے ۔ جب جسٹس ثاقب نثار چیف جسٹس آف پاکستان ،اور جسٹس کھوسہ سنیارٹی کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر، اور جسٹس شاہ صاحب لاہور ہائی کورٹ کے جج ہوں گے تو ہمارے سامنے جسٹس سسٹم میں بامعانی اصلاحات کے مواقع کی کھڑکی ضرور کھلے گی۔ ہمارے پاس جسٹس سسٹم کے ایک اور تابندہ ستارے، پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس یحییٰ آفریدی ہیں جو ممکنہ طور پر پشاور ہائی کورٹ کے اگلے چیف جسٹس ہوں گے ۔ اگلے چند برسوں تک اگر یہ قیادت فعال رہی تو پاکستان میں عدالتی نظام کی اصلاح کا امکان پیدا ہوجائے گا۔
بامعانی اصلاحات لانے کے ایجنڈے سے مراد جسٹس چوہدری کے مقبول عام اسٹائل کا اعادہ ہر گز نہیں ہے کہ دھماکہ دار بیانات دیتے ہوئے شہ سرخیوں اور بریکنگ نیوز کی زینت بنیں لیکن مسائل کے انبارتلے دبے ہوئے عوام کو وقتی کتھارسز کے سوا ٹھوس ریلیف فراہم نہ کریں۔ ہر کوئی اس بات سے آگاہ ہے کہ نظام ِ انصاف مسائل سے بھرا ہوا ہے ۔ جج حضرات وکلا کو مورد ِ الزام ٹھہراتے ہیں، جبکہ وکلا ججوں کے معیار ، اہلیت اور اپنے کام سے وابستگی پر سوال اٹھاتے ہیں۔ عوام مجموعی طور پر یقین رکھتے ہیں کہ جج، وکلا اور عدالتی عملہ ، سب ایک مافیا ہیں جس سے کوئی خیر کی توقع نہیں ہے ۔ عوام کے اس تاثر میں سچائی موجود ہے ۔ چنانچہ اس نظام کے تمام پہلوئوں کی اصلاح درکار ہے ۔ تاہم اس کا آغاز اوپر سے ہو، اور سب سے اوپریقینا جج حضرات ہی ہیں۔ ہر وکیل کیس جتینا چاہتا ہے، اس کے بعد اُس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ منصف اور غیر جانبدار جج کے سامنے پیش ہو جو اُس کی بات تحمل سے سنے، کیس کی میرٹ کو سمجھے اور بلاکسی غیرضروری تاخیر کے فیصلہ سنا دے۔ اسی طرح عدالت میں آنے والا ہر سائل چاہتا ہے کہ وہ ایسے جج کے سامنے پیش ہو جو اس کی داد رسی کرے، اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم ایسا جج ہو جو اس کے حریف کا ساتھ نہ دے رہا ہو۔
ہمارے جسٹس سسٹم کے مسائل کا تعین راکٹ سائنس نہیں۔ مشکل سوال یہ ہے کہ اس کی اصلاح کیلئے کوئی کچھ کیوں نہیں کرتا؟اس کا سادہ ساجواب یہ ہے کہ ہمارے پاس ایسے افراد کی قلت ہے جو موجودہ گلے سڑے نظام کیخلاف لڑنے کیلئے اپنی صلاحیتیں وقف کردیں، اور ایسا کرتے ہوئے وہ طاقتور حلقوں کے مفاد کو چیلنج کرکے اُنہیں اپنا دشمن بنا لیں۔ تاہم جسٹس منصورعلی شاہ ایسے ہی ایک نابغہ ٔ روزگار ہیں۔ جو لوگ ان کی تعیناتی کا خیر مقدم کررہے ہیں اور وہ جنہیں خوف آرہا ہے، اس کی یہی ایک وجہ ہے ۔وہ سوچتے ہیں کہ وہ ایک ایسے شخص ہیں جو نہ صرف اپنے کام سے کام رکھتے ہیں بلکہ ہر کام کو درست طریقے سے بھی انجام دیتے ہیں۔ جو افراد لاہورہائی کورٹ میں جسٹس شاہ صاحب کی کارکردگی سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ اُنہیں مسائل کا بخوبی علم ہے اور اُنہوں نے اُنہیں حل کرنے کی کوشش بھی کی ہے ۔ بطور جج اُنہوں نے عدالت پرکیس مینجمنٹ کو بہتر کرنے اور شفافیت کویقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا، نیز اُنہوں نے بااثر افراد کا اپنے کیسز کیلئے من پسند ججوں کوچننے کے امکان کو بھی ختم کردیا۔ اُنہوں نے کوشش کی کہ ہر کیس ایسے جج کے پاس جائے جو اس کے بارے میں تجربہ رکھتا ہو۔ اُنہوں نے لاہور ہائیکورٹ کےا سٹاف کیلئے ریسورس سینٹر بنایا، جس میں ضلعی عدلیہ کے تجربہ کار ممبران ہائی کورٹ کے جج حضرات کیلئے ریسرچ کا کام کرتے تھے۔ اُنہوں نے لاہور ہائی کورٹ کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنے کے منصوبے کی حمایت کی۔ اُنہوں نے پوری کوشش کی کہ پنجاب جوڈیشل اکیڈمی صرف ریٹائرڈ ججوں کی آرام گاہ نہ ہوبلکہ تربیت اور مہارت کی حقیقی درس گاہ ہو۔
ان تمام عقلمندانہ اور دانشمندانہ تصورات کو مجموعی اصلاحات کے ایجنڈے میں شامل کیا جائے اور پھر اعلیٰ عدلیہ سے لے کر ماتحت عدلیہ تک، ہر جگہ ایسے افراد کو تلاش کیا جائے جو اصلاحی عمل کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہوں۔ فرد ِ واحد خود کو نمایاں کرسکتا ہے لیکن وہ عملی طور پر کچھ نہیں کرسکتا۔ حقیقی قیادت یہ ہے کہ آپ دیگر افراد کو بھی اپنے ساتھ چلنے پر آمادہ کریں۔ زیادہ تر لوگ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ عدلیہ کی اصلاح کا بہترین طریقہ میرٹ کا خیال رکھنا ہے تاکہ اس ادارے میں صرف باصلاحیت افراد ہی آسکیں۔ اس میں ایسے حالات پیدا کیا جائیں تاکہ ہر کسی کو انتہائی معیار برقرار رکھنا ضروری محسوس ہو، اور وہ ٹریننگ کواپنے لئے لازمی سمجھے ۔ اس کیلئے فوج کا نظم قائم کیا جائے تاکہ غلطی کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے ۔
نظام ِعدل کی اصلاح ضروری بھی ہے اور ممکن بھی۔ موجودہ جوڈیشل افسران اسے ممکن بنا سکتے ہیں۔ لیکن اُنہیں خبردار رہنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ تباہی اور مایوسی پھیلانے والا عناصر کی بھی کمی نہیں، لیکن اُنہیں نظر انداز کرنا ہوگا۔ موجودہ نظام زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا، اس کی اصلاح ناگزیر ہے۔ آخر میں، جسٹس نثار، جسٹس کھوسہ اور جسٹس منصو ر علی شاہ کیلئے ایک وارننگ، کہ جتنی زیادہ توقعات ہوں، مایوسی کا خدشہ بھی اتناہی زیادہ ہوگا۔
تازہ ترین