• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

8 ؍فروری پاکستان کی تاریخ میں رات بارہ بجے کے بعد عوامی دن کے نام سے یاد کیا جائے گا۔جلوس جس کیلئے لوگ خرید کر بلائے اور لائے جاتے تھے، وہ اپنی مرضی سے منتخب ہونے والوں کو سامنے نہ دیکھ کر ہر شہر اور ہر قصبے میں ان سردراتوں میں سڑکوں پر اور خود کو رہنما سمجھ کر جو چاہتے وہ کرتے تھے، وہ گرم کمروں میں بیٹھے ایک دوسرے کی شکلیں دیکھ کر وہ ،جس کو ہم اپنا نوجوان رہنما سمجھتے تھے،عوام کے درمیان بیٹھنے کی بجائے ،امریکی سفیر سے ملاقات کر رہا ہے اور وہ جو یہ سوچ کر ملک میں واپس آئے تھے ان کے تو ہاتھوں کے طوطے اور وہ کبوتر جسے وہ اپنی نشانی سمجھ کر دکھاتے تھے، وہ سب پاکستان کے گلی کوچوں میں ، الیکشن کمیشن کے خلاف اور ہر اس شخص کے خلاف جو ضیاء الحق کے زمانے سے حکومت میں تھے، ان کی شکل دیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ جذباتیت کی بات نہیں۔ یہ غصے کی بات نہیں ۔ یہ ملک میں چار سو روپے کلو پیاز اور 25روپے کی روٹی کے خلاف، بجلی اور گیس کے ہزاروں کے بلوں کے خلاف ،عوام اپنی خالی جیبوں کے ساتھ سڑکوں پر ہیں او رجس کا نام لینا منع ہے۔ وہ اپنی حماقتوں ، سیاسی کم فہمی اور جلالی وظیفوں کے باعث، زندانی ہے۔ یہ اکیلا کیوں لائق سزا ہے۔ کتنے جاتی امرأ ،زرداری ہائوس،وڈیروں اور سہولت کاروں کے غلام ہیں۔ قوم ان سب کا احتساب چاہتی ہے۔ مگر ایسا احتساب نہیں جو مشرف کرتا تھا۔ ایسا احتساب نہیں جس نے اس ملک کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا تھا۔

اگر قائد اعظم کے بعد، اس ملک میں افراتفری کو چالاکی سے ایوب خان نےمارشل لا لگا کر ختم کیا۔ اس کےبعد یہ نسخۂ کیمیا اب تک کام آتا رہا۔ سیاست دان، خوش ہوتے تھے کہ انہیں بھی کسی نہ کسی طرح حصہ مل جاتاتھا۔ آخر سسک سسک کر یہ قوم 8؍ فروری کو غصے میں بھری ہوئی نکلی۔ یہ غصہ قیدی کی محبت میں نہیں۔ ملک کی بگڑی معیشت میں ان سب سیاست دانوں کو حصہ دار بنتے دیکھنے کے بعد الیکشن سے پہلے کوئی باقاعدہ معاشی نظام بنانے کے بجائے، اپنی اپنی ــ’میں وزیر اعظم ،میں وزیر اعظم‘ کی ڈفلی بجاتے بجاتے آج جب قوم مسلسل ان کے نام سے بیزار احتجاج کر رہی ہے۔ وہ اب بھی بندر بانٹ میں لگے اور آزاد ممبران کو دکھا دکھا کر بریانی کھانے کے وعدے بخش رہے ہیں۔

پنجاب کا خاص طور پر قیام پاکستان سے پہلے یہی کردار تھا کہ جب سکندر حیات، پنجاب کے وزیر اعظم بنے، بعدازاں جب خضر حیات بنے، پنجاب کے لوگ پہلے کہتے ہوئے نکلتے تھے ’’تازہ خبر آئی ہے خضر ہمارا بھائی ہے۔‘‘ اب نقشہ اور ہے، شمالی وزیرستان میں جلوس پر گولیاں ہوں کہ محسن داوڑکو تین گولیاں کہ آزاد ممبران کا اغوا، گرفتاری یا مال دے کر خریداری ، چند بندوں پہ مشتمل یہ پارٹیاں کبھی تین دن میں 9دفعہ جہاز گھما رہی ہیں۔ ایک دوسرے کی چھ ماہ کی حکومت یا سال بھر کی حکومت کے وعدوں کے جال بچھا ئےجارہے ہیں مگر یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ پوری قوم نے ان سیاسی بغچوں کو اصل چہرہ دکھا یاہے۔ سڑک پہ آنے والی خواتین جنہوں نے گھر میں بھوکے بچے سلائے ہیں۔ وہ نوجوان جن کو لیپ ٹاپ دینے کے وعدے کیے جاتے رہے ہیں۔ ان ہی سیاستدانوں سے تنگ آکر پاکستان سے 8لاکھ نوجوان نوکریاں تلاش کرتے کہیں دم گھٹنے اور کہیں کشتی ڈوبنے پہ زندگی کی بازی ہار گئے ہیں۔ان حالات میں بھی ان کی خوئے حکمرانی نہیں جاتی بلکہ وہ چھٹ بھئیےجو صفحہ ٔ سیاست پہ صرف لفاظی کرتے ہیں،وہ بھی لاہور میں میاں صاحب کی جنت دیکھنے کا شوق لئےخراماں خراماں آکر ہاتھ چوم رہے ہیں۔ اس میں مذہب کے نام لیوائوں کے وہ نام بھی شامل ہیں جو خود کو تحریک کہہ کر لوگوں کو ور غلاتے اور دھرنے دے کر، فوج سے بھی دستخط لے کر اپنی جان بچاتے رہے۔ سب یہ جانتے ہیں کہ ساجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں گر جاتی ہے۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ صحافی، اپنی جان بچانے کو وہ لکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ میڈیا پر بھی بزدلی کے بادل ہیں اور اب بھی سرکاری لیپا پوتی والی خبریں یا پھر مظاہرہ کرنے والوں کی گرفتاریاں۔ دراصل یہ سب لوگ ملک سے غربت ختم کرنے کا نہ سوچتے ہیں اور نہ زندگی میں کبھی منصوبہ بندی کی ہے۔ اب ہم سب کے سامنے ہے کہ یہ سو ،سواسو پرانے شعبدہ باز، ریحانہ ڈار جیسی ایک بوڑھی عورت سے بھی ڈر رہے ہیں۔ لوگ ان کی طرح کے جہانگیر ترین جیسے لوگ اور چودھری نثار جیسے اصحاب کی طرح نکل کر عوام کو اور بھی برا فروختہ کر رہے ہیں کہ آگئے ہو، نیا جال لے کر، یہ نیا لبادہ بھی ظاہر کرتا ہے اس دفعہ تو نہ دولت چلی ہے نہ دھونس۔ نہ فرقہ بندی ، نہ لسانی تعصبات بس ایک فیصلہ ۔ آپ کو اور آپ کی اولاد سب کو نئے کپڑے پہن کر جھوٹ بولتے اپنے کانوں سے سنا ہے۔ لکھی ہوئی تقریریں، عوام کی تقدیر بدلنے کے وعدوں سے تنگ آکر، دیامیر سے تھر پارکر اور ٹانک تک عوام بلبلا کر اس وقت نکلے جب موجود سرکار کے ہر کاروں نے بہت سے سیاسی پہلوانوں کے اعداد و شمار کو فنا ہوتے دیکھا تو وہ ہوا جو کوثر نیازی جیسوں نے ضیاء الحق جیسوں کو شہ دلائی تھی اور پاکستان اس مذہبی غار سے اب تک نہیں نکل سکا ہے۔

اس قوم نے پہلی دفعہ زندہ ہونے کا ثبوت دیا۔ قوم، بھٹو صاحب کی پھانسی اور بے نظیر کاقتل تک سہ چکی ہے، کوئی حد ہوتی ہے جبر کی۔ زبردستی قیدی نمبر 804کو ہیرو مت بننے دیں۔ ادھر درخواست ہے آزاد ارکان، ایک دفعہ پھر کسی جال میں نہ آئیں۔ ادھر بیرسٹر گوہر مت اترائیں۔ اس پھیلے ہوئے طوفان کو اپنے مقاصد کیلئے نہیںبلکہ پاکستان کے غریبوں کے دن بدلنے دیں۔ حبیب جالب کی روح بھی خوش ہو جائے گی۔

تازہ ترین