• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریاست اور میڈیا سے عوام کابھروسہ اٹھ گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسے ایسے حقائق منکشف ہورہے ہیں کہ سادہ لوح پاکستانی سکتے میں رہ جاتے ہیں۔ملک کے استحکام کیلئے عوام کا اطمینان ضروری ہے۔ لیکن خواص محض اپنی تسلی چاہتے ہیں ۔ کروڑوں کی مرضی ان کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتی اسلئے آئین ، قانون، جمہوریت پارکنگ لاٹوں میں پڑے سسک رہے ہیں۔

1951 ءکے پنجاب کے جھرلو انتخابات سے لے کر بیسویں اور اکیسویں صدی کے جتنے اچھے برے انتخابات دیکھے ہیں۔ ایک ووٹر،ایک رپورٹر، ایک ایڈیٹر کی حیثیت سے جو تجربات اور مشاہدات ہوئے ان کی روشنی میں اپریل 2022 ءسے ہونیوالے واقعات پر جو جملے یا شعر ذہن کی اسکرین پر ابھرتے ہیں وہ سوشل میڈیا کی اسکرین پر بھی ڈال دیتا ہوں اور اپنی تحریروں کو بھی ان خیالات سے مزین کرتا ہوں۔ فیس بک روزیہ What is on your mind پوچھ کر دعوت اظہار دیتا ہے۔ 2024 ءکے انتخابات میں ہونیوالی انجینئرنگ، رفو گری، پیوند ساز تطہیر، تزئین، تخریب، از سر نو تعمیر کو سوشل میڈیا کی اس دعوت ِاظہار نے ہی طشت از بام کردیا ہے۔ میری پوتی محاوروں، ضرب الامثال کے بارے میں کچھ دن پہلے پوچھ رہی تھی۔ پہلے تو میں نے کہاوتوں ، محاوروں کے بارے میں اطہر اقبال کی کتابوں کا مشورہ دیا۔ پھر کہا کہ ان دنوں نگراں حکومت، عدالتیں اور ہمارے حکمراں طبقے سب کچھ با محاورہ کررہے ہیں۔ مثلاً سانجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے ٹوٹنا۔ کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔ آگ کو دامن سے ڈھانکنا۔ آنکھوں سے اندھا نام نین سکھ۔ جب تک رکابی بھات میرا تیرا ساتھ۔ اپنی گانٹھ نہ پیسا،پرایا آسرا کیسا۔ کوٹھی اناج کوتوال راج۔ غریب کی جورو سب کی بھابھی۔ ایک میاں موج کا ایک ساری فوج کا۔ گدھے کو گدھا ہی کھجلاتا ہے۔ راجے کی بیٹی قسمت کی ہیٹی۔ عقل بغیر کنوئیں خالی۔ بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ گڑ سے جو مرے تو زہر کیوں دو۔ کام کا نہ کاج کا، دشمن اناج کا‘‘۔ یہ ضرب الامثال میری تلاش کا نتیجہ ہیں۔ آپ کو جو حسب حال لگیں ان سے آگاہ کریں۔

ہم اپنی تاریخ کے شکر گزار ہیں کہ وہ اپنے آپ کو بار بار دہراتی ہے۔ لیکن ہم اسی بل سے بار بار ڈسے جاتے ہیں تو کیا ہم مومن نہیں ہیں۔ معاف کیجئے ایک شعر یاد آ گیا۔’’جو چپ رہے گی زبان خنجر... لہو پکارے گا آستیں کا‘‘۔ ہم آج تک کلیم عاجز کے شعر پر داد دیتے رہے۔ ’’دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ ... تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو‘‘۔ ہمارے بڑوں نے کلیم عاجز کا قرض بھی چکا دیا۔ اب کے قتل کیے ہیں کرامات نہیں۔ ہم دامن پہ چھینٹےبھی دیکھ رہے ہیں اور خنجر پر داغ بھی بہت ہیں۔اب کے خود اعتمادی اتنی تھی کہ کوئی احتیاط نہیں کی۔ سب کچھ صاف شفاف طریقے سے کیا ہے۔ سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کا ہے کا۔کوتوال مقامی بھی ہیں، عالمی بھی۔

منزل مقصود سب مستحکم پاکستان بتاتے ہیں۔ لیکن لوکیشن سب کی مختلف ہے۔ کچھ چوتھی بار وزیراعظم بن کر لائو لشکر پروٹوکول کے ساتھ اس منزل کو ہاتھ لگانا چاہتے ہیں۔ کچھ کو اپنی ذمہ داریوں میں توسیع کے ساتھ اس منزل تک پہنچناہے۔ میاں نواز شریف ملک کو پٹڑی پر لانے کیلئے دس سال کا عرصہ تجویز کررہے ہیں۔ یعنی 2034 تک پاکستان مستحکم ہوسکتا ہےبشرطیکہ وہ وزیر اعظم رہیں۔ انہیں نکالا نہ جائے۔ جناب آصف علی زرداری اپنے صاحبزادے بلاول کو وزیر اعظم بناکر استحکام پاکستان کی نوید دیتے ہیں۔ طاقت ور حلقے دونوں کو ڈھائی ڈھائی برس دے کر سمجھتے ہیں کہ گوہر مراد حاصل ہوسکتا ہے۔ جس کو خلق خدا وزیر اعظم دیکھنا چاہتی ہے۔ مقتدر نے اس پر کاٹا لگا رکھا ہے۔

کہا تو جاتا ہے۔ جمہوریت۔ عوام کی حکومت عوام کے ذریعے، عوام کیلئے۔ بے چارے عوام واہگہ سے گوادر تک اس جذبے سے سرشار پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچتے ہیں۔ وہ بیلٹ بکس میں کسی اور کیلئے مہر لگاکر ہری اور سفید پرچیاں ڈالتے ہیں، نکلتی کسی اور کی ہیں تو پاکستانی جمہوریت کا فارمولا یہ بنتا ہے۔ خواص کی حکومت خواص کیلئے لیکن عوام کے ذریعے۔

پاکستان میں یہ سوچنا مشکل تھا کہ قوم اس طرح باہر نکلے گی اور کسی ایک کی آواز پر اس طرح مختلف نشانوں پر مہر ثبت کرے گی۔ تاریخ اور جغرافیہ دونوں پاکستان کے عوام کے شعور اور حافظے کو ہمیشہ قابل قدر قرار دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے علاقے میں پسندیدہ لیڈر کے حمایت یافتہ امیدوار کے نشان کو پولنگ بوتھ پر بھی یاد رکھا۔ تاریخ سرپیٹ رہی ہے، ریاست کے ستون لرزاں ہیں۔ ریاست وہی تجربے کرنے پر مصر ہے جو پہلے ناکام ہوکر مملکت کو اس بد حالی، بربادی تک پہنچاچکے ہیں۔ کیا یہ مناظر غیر معمولی نہیں کہ فارم 45سے فارم 47 کے درمیان کئی کئی گھنٹے لگ رہے ہیں۔ بعض فارموں میں درج ووٹ اتنے زیادہ ہیں کہ بیلٹ پیپر خود شرمارہے ہیں۔ اکیسویں صدی میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یا تو خرد برد کا سلیقہ بہتر ہونا چاہئے تھا یا اس کی ضرورت نہ رہتی۔

اب تو سوشل میڈیا ہے۔ مصنوعی ذہانت ہے۔ا سلئے ایک فرد سے خوف کیوں۔ اس کی غیر معمولی مقبولیت سے تو ملک کو مستحکم کرنے میں مدد لینا چاہئے ہمیں تو ممنون اور شکر گزار ہونا چاہئے۔ اس ایک شخص کا کہ اس نے تمام جبر، سفاکی اور سختیوں کے باوجود عوام کو ایسا حوصلہ دیا ہے کہ انہوں نے اسے دو تہائی سے بھی زیادہ مینڈیٹ اسی لیے دیا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ وہ ملک کو استحکام دے سکتا ہے۔ کروڑوں کی رائے پر چند لوگوں کی رائے کو فوقیت کیوں دی جارہی ہے۔ قانونی اور آئینی راستے پر گروہی ناکے کیوں لگائے جاتے ہیں۔ سب جمہوری ملکوں میں مقبولیت ہی کو قبولیت سمجھا جاتا ہے۔ یہاں عوامی مقبولیت کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ اداراتی قبولیت بھی ضروری ہے۔ مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات۔ یہ کیوں نہیں سمجھا جاتا کہ اس سے قطع محبت مقصود نہیں ہے۔ مقبولیت دینے کا حق صرف عوام کا ہے۔ خواص کی ذمہ داری ہے کہ اس مقبولیت کو قبول کریں یہی سیدھا راستہ ہے۔ پارلیمانی نظام کی تو بنیاد یہی ہے۔ زیادہ دیر انجینئرنگ میں لگانے سے اقتصادی اور آئینی بحران مزید گہرا ہوگا۔ عوام پہلے ہی برہم ہیں کہ ریاست ان کی مرضی کے خلاف فیصلے مسلط کررہی ہے۔ اپنے منظور نظر افراد کو ہی ملکی خزانہ اور اثاثے سونپنا چاہتی ہے۔ اکیسویں صدی جمہوریت اور بہتر حکمرانی کی صدی ہے۔ پاکستان کے عوام کا مقدر موروثی حکمرانی کیوں۔ ان کا حق انہیں کیوں نہیں ملتا۔

تازہ ترین