کراچی (امداد سومرو) سکھر پولیس نے ایک ہیڈ کانسٹیبل شبیر راجپوت کو مختلف جرائم پر گرفتار کرنے کے بعد دوبارہ رہا کر دہا ہے۔ شبیر سومروکو24جون کو گرفتار کیا گیا تھا ۔ان پر سندھ اور بلوچستان کے مختلف تھانوں میں قتل اقدام قتل ، پولیس مقابلوں اور اغوا کے الزامات ہیں۔اس کی گرفتار کی خبرکراچی کے کلری پولیس تھانے میں پہنچی توعلقے کی پولیس پارٹی سپروائزنگ انویسٹی گیشن آفیسر جاوید احمد کی قیادت میں سکھر پہنچی تو انہیں بتایا گیا کہ متعلقہ پولیس اہلکار کو رہا کر دیا گیا ہے۔ جب اس سلسلے میں ڈی آئی جی سکھر فیروز شاہ سے رابطہ کیا گا تو انہوں نے کہا کہ شبیرسومرو ایک معصوم شخص ہے اور اس کے خلاف جن مقدمات کا اندراج کیا گیا ہے وہ جعلی ہیں ، مزید برآں انہوں نے نہ تو متعلقہ عہدیدار کو گرفتار یا ہے اور نہ ہی رہائی کے احکام دیئے ہیں تاہم انہوں نے بتایا کہ وہ اس کے خلاف درج کیے گئے مقدمات پرایک انکوائری کرارہے ہیں۔جب اس رپورٹر نے ڈی آئی جی سے پوچھا کہ کسی شخص کی معصومیت تو صرف عدالت میں ہی ثابت ہوسکتی ہے اوروہ خود بھلا کیسے یہ پتہ چلا سکتے ہیں قتل، اغوا اور پولیس مقابلے کے الزامات درست ہیں یانہیں جو کہ سندھ اور بلوچستان کے مختلف تھانوں میں مذکورہ شخص کے خلاف درج ہیں۔ اس پر ڈی آئی جی نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے رپورٹر کو ایس ایس پی سکھر سے بات کرنے کےلیے کہا۔ادھر ایس ایس پی سکھر امجد شیخ نے راجپوت کو فوجدارجرائم میں ملوث ہونے پر سروس سے برطرف کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ایس ایس پی سکھر کے ایکشن نےسینئر آفیسر ڈی آئی جی شاہ کو بھی ناراض کر دیا ہے کیونکہ ان کے بارے مین بتایا جاتا ہے کہ وہ اس مجرم پولیس اہلکار کا حامی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سکھر پولیس کے تمام تر سینئر افسران ڈی آئی جی شاہ کے رویئے سے نالاں ہیں ۔ ڈی آئی جی شاہ کے بارے مین بتایا جاتا ہے کہ وہ حکمران جماعت کی اشرافیہ کی آنکھ کا تارا ہے ۔ ان افسران نے پولیس کی اعلیٰ ترین قیادت تک اپنے تحفظات پہنچا دیئے ہیں۔ادھر کلری تھانے کی پولیس پارٹی کی سربراہی کرنے والے سپروائزنگ انویسٹی گیشن آفیسرجاوید احمد نے تصدیق کی ہے کہ انہیں ان کے سینئر افسران نے اور سکھرپولیس سرکاری طور پر رابطہ کرکے ہیڈکانسٹیبل شبیر راجپوت کو تحویل میں لینے کی ہدایت کی تھی کیونکہ کلری تھانے میں اس کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج تھا لیکن جب جاوید احمد اپنی پارٹی کے ہمراہ سکھر پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ اس شخص کو رہا کر دیا گیا ہے۔ایک سوال کے جواب میں ایس آئی او جاوید احمد کا کہنا تھا کہ وہ یہ تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں کہ ایک شخص جو بیہمانہ جرائم میں ملوث اسے تحویل سے کیونکر رہا کر دیا گیا ہے۔دی نیوز کےپاس موجود دستاویزی شہادتوں کے مطابق پولیس آفیشل شبیر راجپوت کراچی پولیس میں سب انسپکٹر ہوا کرتا تھا لیکن سپریم کورٹ کے حکم پر اس کی تنزلی کرک اس کا عہدہ کم کر دیا گیا۔ دستاویزی شہادتوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہےکہ اس کے خلاف بلوچستان کے علاقوں ڈیرہ اللہ یار اور گوادر میں مقدمات درج ہیں۔اکتوبر 2014میں فائرنگ کے نتیجے میں لیاقت کھوسو قتل ہوگئے جبکہ ان کا بھائی کرم اللہ کھوسوزخمی ہو گیاتو ان کے وارثوں نے یہ ایف آئی آر ہیڈ کانسٹیبل شبیرکھوسو اور اس کے معاونین کے خلاف درج کرائی ۔اس مقدمے اور اغوا اور پولیس مقابلے کے دو دیگر مقدمات کی سماعت ایک ہی دن ہورہی ہے۔بعد میں اس مقدمے کی پیرسی سے بازرکھنے کےلیے کرم اللہ کھوسو کو اکتوبر215میں اغوا کر لیا گیا ۔شکایت کنندہ کرم اللہ کھوسو کا کہنا ہے کہ وہ یہ جان کر صدمے میں ہیں کہ ان کے ایک بھائی کے قتل کا مجرم اور دوسرے کو زخمی کرنے والا مجرم اور بعد ازاں خود انہیں اغوا کرکے تشدد کرنے کا مجرم سینئر پولیس افسر کے احکامات پر رہا کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ سینئر پولیس عہدیداروں نے پولیس اہلکار راجپوت کی رہائی کےلیے بہت بڑی رشوت لی ہے۔کھوسو نے مزید بتایا کہ اس کی اور اس کے خاندان کی زندگی خطرے میں ہے اور اگر انہیں کوئی نقصان پہنچتا ہے تو مقدمہ ڈی آئی جی شاہ کے خلاف درج کیاجائے۔