• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ انتخابات کے بعد سیاسی استحکام کی طرف سفر شروع ہو جاتا اور یہی سفر ہمیں معاشی استحکام کی نوید سناتا مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہو سکا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان شفاف الیکشن کروانے میں بری طرح ناکام ہوا، اس کی گواہیاں نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا سے آ چکی ہیں۔ انٹرنیشنل میڈیا تو وہ سب کچھ بیان کر چکا ہے جو ہمارے ہاں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اب حالت یہ ہے کہ وفاقی دارالحکومت سمیت چاروں صوبوں میں احتجاج ہو رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں احتجاج کی یہ کیفیت تقویت پکڑے گی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس خاکسار نے الیکشن سے ڈیڑھ ہفتہ پہلے متنبہ کیا تھا کہ الیکشن کو شفاف رکھا جائے، اگر دھاندلی کی گئی تو فروری کے تیسرے ہفتے میں احتجاجی تحریک چلے گی۔ اب حالات آپ کے سامنے ہیں کہ کس طرح ہارنے والوں کو جتوایا گیا، لوگ فارم 45 لے کر گھوم رہے ہیں اور فارم 47 پر اعتراض کر رہے ہیں حالانکہ دھاندلی پکڑنے کیلئے فارم 46 کی بات کرنی چاہئے، لہٰذا میری ایسے تمام دوستوں سے درخواست ہے جو فارم 45 کے تحت جیت چکے ہیں اور فارم 47 کے تحت ہار چکے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ سب سے زیادہ شدت سے بات فارم 46 کی کریں۔ میں اپنے قارئین کی مدد کے لئے تینوں فارمز کی چھوٹی سی وضاحت پیش کرتاہوں۔ فارم 45کسی بھی پولنگ اسٹیشن کا پریزائیڈنگ آفیسر تمام پولنگ ایجنٹس کو دیتا ہے، اسی کی بنیاد پر ریٹرننگ آفیسر فارم 47 جاری کرتا ہے جو کہ پورے حلقے کا نتیجہ ہوتا ہے یعنی پولنگ اسٹیشن کا نتیجہ جاننے کے لئے فارم 45 دیکھا جاتا ہے اور پھر حلقے کا نتیجہ جاننے کے لئے فارم 47 دیکھا جاتا ہے۔ اب ان کے درمیان فارم 46 کیا ہے، فارم 46 ایک ایسا فارم ہے جو ہر قسم کی دھاندلی کے خفیہ راستے بھی روک دیتا ہے کیونکہ اس مرتبہ الیکشن میں مبینہ طور پر الگ سے فارم 45 پربھی دستخط کروائے گئے لہٰذا فارم 45 تبدیل کر دیئے جائیں گے تو ایسی صورت میں کونسا راستہ ہو گا جس سے دھاندلی بے نقاب ہو سکے گی، یہ واحد راستہ فارم 46 ہے۔ الیکشن سے ایک دن قبل ریٹرننگ آفیسر یعنی آر او فارم 46 کے تحت بیلٹ پیپرز پریزائیڈنگ آفیسر کو الاٹ کرتا ہے مثلاً ایک پولنگ اسٹیشن میں ووٹرز کی تعداد ایک ہزار ہے تو پریزائیڈنگ آفیسر کو تیرہ سو کے لگ بھگ بیلٹ پیپرز دیئے جاتے ہیں اب ان تیرہ سو میں سے چھ سو ووٹ استعمال ہوئے تو باقی سات سو بیلٹ پیپرز ایک لفافے میں بند کر کے اسے سیل کر دیا جاتا ہے اور اس پر لکھا جاتا ہے، غیر استعمال شدہ ووٹ۔ فارم 46 یہاں استعمال ہوتا ہے یعنی یہ ووٹوں کا حساب کتاب ہے۔ دھاندلی والے کیا کرتے ہیں کہ وہ یہی غیر استعمال شدہ بیلٹ پیپرز استعمال کرتے ہیں اور ڈبوں میں ووٹ تبدیل کر دیتے ہیں، لہٰذاہارنے والوں کو چاہیے کہ وہ فارم 46 کا مطالبہ کریں تاکہ ووٹوں کا حساب کتاب سامنے آ سکے۔ فارم 46 کا پیٹ بھرنے کے لئے الیکشن کمیشن کو کم از کم دو مہینے اور چاہیے ہونگے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کو چاہئے کہ وہ فارم 46 کی بات کرے۔ سپریم کورٹ کے ریکارڈ میں یہ بات ہے کہ ایک زمانے میں فارم 45 کی جگہ فارم 15 ہوتا تھا اور فارم 47 کی جگہ فارم 17 ہوتا تھا، فارم 46 کی جگہ فارم 16 ہوتا تھا۔ جب دھاندلی کا منہ زور گھوڑا بے قابو ہونے لگا تو حفیظ پیر زادہ نے مطالبہ کیا کہ عدالت معاملات کو فارم 16 کے حوالے سے دیکھے، یوں ساری دھاندلی بے نقاب ہو کر رہ گئی تھی۔ اس زمانے کا فارم 16 آج کا فارم 46 ہے۔ انتخابات جمہوریت کا حسن ہیں مگر ہمارے ہاں یہ حسن ہمیشہ ہی سے داغدار کرنے کی کوشش کی گئی اور اس مرتبہ تو اس حسین چہرے پر تیزاب پھینک دیا گیا، اب یہ الیکشن نہ تو عوام کو مطمئن کر سکا ہے نہ نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا نے ان انتخابات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور’’شیطانی میڈیا‘‘ تو نت نئے قصے کہانیاں سامنے لاتا ہے، پتہ نہیں اس میں جنات کام کرتے ہیں کیونکہ بہت سی وارداتوں کی ویڈیوز سامنے لانا اس’’شیطانی میڈیا‘‘ کا کام ہے۔ کہاں دھونس دھاندلی ہوئی، کہاں پریزائیڈنگ افسروں پر دباؤ ڈالا گیا، کہاں ٹھپے لگائے گئے، کہاں کہاں آر اوز کے دفاتر کو یرغمال بنایا گیا، کہاں کہاں سے جیتنے والوں کو نکالا گیا، بس یہ سارے کام’’شیطانی میڈیا‘‘ نے کیے۔ اب جب پوری قوم اور دنیا کا میڈیا کہہ رہا ہے کہ الیکشن شفاف نہیں ہو سکے تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں، اس حوالے سے بہت سے مقدمات عدالتوں میں ہیں، ان انتخابات کے بل بوتے پر بننے والی حکومتوں سے متعلق کیا کہا جائے گا، میرے نزدیک حالیہ الیکشن میں سیاسی استحکام مزید دور ہو گیا ہے۔ جب سیاسی استحکام دوری اختیار کر لے تو معاشی استحکام روٹھ جاتا ہے۔ روٹھے ہوؤں کو منانا بہت مشکل کام ہے۔ خاکسار نے سیاست کا سچا ’’چہرہ‘‘ آپ کے روبرو رکھ دیا ہے کہ بقول احمد فراز

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

تازہ ترین