• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی 76 سالہ تاریخ کا متنازع ترین الیکشن کتنے اختتام و آغاز کا موجب بن گیا اور بن رہا ہے؟اس کی گنتی بھی آسان ہوگی نہ ہے۔ اس حوالہ سے جو ہوگیا اور جو ہو رہا ہے اسے مسخ بھی نہ کیا جاسکے گا کہ بیش بہا اور جدید ترین انفارمیشن ٹیکنالوجی مرتب ہوتی متاثر کن پاکستانی تاریخ سازی کی محافظ (کسٹوڈئین) بن گئی ہے۔ بلاشبہ 8 فروری 2024 کو ہونے والا ملک گیر غیر معمولی دھونس دھاندلیوں سے اَٹا یہ الیکشن اپنی آلودہ اور جانبدارانہ نوعیت ، فوری اور امکانی نتائج کے اعتبار سے پاکستان (14اگست 1947) اور سقوط ڈھاکہ (16 دسمبر 1971) کے بعد ہماری اب تک کی تاریخ کا تیسرا اہم ترین باب بن گیا ہے۔ یہ اتنا ہمہ پہلو بیلٹ ریولیوشن ہے کہ اس کے نتیجے میں پاکستان پر عشروں سے مسلط نافذ آئین و قانون سے متصادم مافیاکا گھڑے موروثی نظام بد کی حتمی شکست و ریخت یقینی ہوگئی ہے۔ لیکن اب بھی آسانی سے نہیں کہ OLIGARCHY (مافیاراج) اپنی منفی سخت گیر کیفیت میں بڑی روایتی طاقت کی حامل ہے۔ سو اسے ریت کی کمزور دیوار ہی نہ سمجھا جائے، تاہم اس کا اختتام حتمی یوں ہوگیا کہ، تازہ دم و بیدار ہوئی تیزی سے قومی سیاست اور حالات حاضرہ کا اپنا شعور بڑھاتی قوتِ اخوت ِعوام نے مسلط نظام بد کو الیکشن 24 میں اپنے حق رائے دہی کی اجتماعی طاقت سے نہ صرف چیلنج کردیا ہے بلکہ اس کی بیخ کنی کیلئے کمال حکمت سے اپنی ایسی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئی جس میں عوام الناس کو ریاستی امور سے دور دھکیلا نہیں جا سکتا۔ پاکستانی قوت عوام بالآخر قوت اخوت عوام کی تشکیل کے عمل میں آگئی۔ واضح رہے جب عوام مشترکہ مفاد کیلئے سرگرم ہو جائیں تو قوت عوام، قوت اخوت عوام کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اولیگارکی کی الیکشن24 کے مقابل یہ اپنی اسی حیثیت سے مطلوب نتائج حاصل کرتی نظر آ رہی ہے، اور اگر نہیں تو تسلط کے خلاف ایک منظم عوامی جدوجہد تو یقینی ہے اس لئے کرتا دھرتا ملک کو مزید عدم استحکام سے دوچار کرنے والے آلودہ الیکشن کا بلاتاخیر مداوا کریں کہ نیا تجربہ مہلک بننے میں ذرا تاخیر نہیں ہوئی، اب معاملہ سیاسی جماعتوں کا نہیں خالصتاً عوام کا ہے۔

پاکستان کو بذریعہ مطلوب الیکشن صحت مند جمہوری، سیاسی و معاشی عمل کی طرف لے جانے کی بجائے پھر بدترین روایتی سیاسی گٹھ جوڑ سے پی ٹی آئی کو ملتے پرجوش اور عوامی تازہ بہ تازہ مسروقہ مینڈیٹ پر حکومت سازی کے درجے تک دو خاندانی سیاسی و انتظامی غلبے کا جو کھیل جاری ہے اس نے قدرے سنبھلی سیاسی و معاشی صورت کو پھر غیر یقینی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ 9-10 فروری سے اسٹاک ایکسچینج پھر بیمار کیفیت میں آگئی ہے، رئیل اسٹیٹ بزنس جو برسوں سے ملک میں بغیر کسی پیداواری عمل کے بڑی اقتصادی سرگرمی بن چکا ہے اس پر بھی جمود کی شنید ہے۔ اشیائے خورو نوش کے نرخوں میں یکدم بڑی تیزی آئی جو متنازع ترین الیکشن کی خبروں اور تجزیوں کے رش میں UNREPORTED جاری ہے۔ امکانی مجوزہ ن لیگی حکومت کے کرتا دھرتا اپنے مبینہ اثر سے اپنی کھلی کھلی ہمرکاب نگراں حکومت سےجلد جلد بجلی گیس کے نرخ بڑھانے اور کتنے ہی عوامی مفادات کے مخالف فیصلے کر ا رہی ہے۔ خبریں ہیں کہ پنجاب میں مزید وفا کی پیکر بابائوں کی نیا لشکر تیار کرنے کی پہلے سے ہوئی منصوبہ بندی پر عمل کی تیاری ہو رہی ہے۔ یہ الیکشن24 کا وہ بدترین عملی نتیجہ ہےجو تشکیل حکومت سے پہلے ہی وفاق و پنجاب میں نکلا وہ فوری نتیجہ جو ن لیگی واضح ہوتی امکانی فیملی برینڈ حکومتوں کو اقتدارمیں آتے ہی کسی بڑی مشکل سے بچانے کیلئے نکلا ہے، لیکن اسی کے متوازی ن لیگ کی قومی سیاست پر بیٹھی دھاک کی تحلیل کا عمل بھی شروع ہوگیا ہے، پارٹی کے اندر موروثی جکڑ سے پیدا بے چینی الیکشن سے پہلے ہی باہر آ چکی ہے، اب اس میں تیزی آ رہی ہے ۔ شاہد خاقان عباسی، جاوید ہاشمی حتیٰ کہ خواجہ سعد رفیق کے تیور نوٹ کئے جائیں ۔ ن لیگ کو ن سے حقیقی مسلم لیگ بنانے کے امکانات اور شریف خاندان کیلئے خدشات میں بھی اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس کے مقابل صرف پنجاب میں ہی نہیں ہر صوبے میں پی ٹی آئی کا فقط سیاسی نہیں، وفاقی اور پارلیمانی غلبے کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ’’جادو‘‘ یوں کہ : ملکی مافیا راج عوامی مشکلات، اجتماعی گرتی حالت، ان کے بنتے پلتے جذبے اور رائے عامہ میں ڈھلتے نئے رحجانات خصوصاً نصف ووٹ بینک کی تازہ دمی اور ٹیکنالوجی پر دسترس، مایوسی، نظام بد سے نفرت کی اسٹڈی اور عوام سے منسلک ہونے کی بجائے سارا انحصار بے نتیجہ اور آئوٹ ڈیٹڈ پروپیگنڈہ اورنٹیڈ ابلاغی مہمات سے اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے، سب سے بڑھ کر 35سال پہلے والے بادشاہ گر محسنوں پر کیا۔ یہ ان کا کمال ہے کہ ن لیگ کی طرف سے چکموں اور بے وفائی کی طویل داستان کے باوجود شریف خاندان کے دوبارہ رجوع پر لاہور ایئر پورٹ پر شاہی طرز کے پروٹوکول سے لے کر عدالتوں سے بریت اور ملک ہی نہیں دنیا بھر میں ہائی فری کوئنسی پر مبینہ (یقین کی حد تک مشکوک) جعلی مینڈیٹ تک کون سی فرمائش تھی جو شریف خاندان کے بڑے ’’محسنوں‘‘ نے مبینہ عطا نہیں کی ؟یوں نہیں لگا کہ سات نہیں، چودہ نہیں، ان گنت خون معاف کر دیئے گئے۔ دوسری جانب الیکشن24 کے ابتدائی اور مکمل ثابت شدہ نتیجے کے طور پر پی ٹی آئی خود کو ملک گیر پری اور پوسٹ پولنگ دھاندلیوں کے باوجود سب سے بڑی اور وفاقی پارلیمانی قوت منوانے میں مکمل کامیاب ہوگئی۔ پری اور پوسٹ پولنگ ان گنت اورسنگین دھاندلیوں سے آلودہ الیکشن 24 کا ایک بڑانتیجہ باریک اور دور بینی سے سمجھنےکی فوری اور حساس قومی ضرورت بن گیا ہے۔ یہ کہ انٹرنیشنل میڈیا اور مینڈیٹڈ بڑی اور اہم حکومتوں نے یقیناً اسلام آباد سے اپنی بھیجی گئی سفارتی رپورٹ پر پاکستانی آلودہ عام انتخاب کے مکمل حقائق کو مکمل سمجھ لیا ہے، تبھی تو ان کے اس پر اظہار کی سفارتی احتیاطوں میں بھی کمی آگئی ہے اورنسبتاً’’کھلے اظہار‘‘ کا گراف بہت جلد بڑھا ہے۔ سیاست میں دلچسپی رکھنے والے عالمی سماج کے اہم سیکشن نے پی ٹی آئی کی اسیر قیادت کو نہ صرف پاکستانی قیادت کا اصل عوامی رہنما تسلیم کرلیا ہے بلکہ ہمارے نظام انصاف کی قلعی بھی ان پر کھل گئی،گلوبل کمیونٹی کایہ سیکشن عمران خان سے ہمدردی کا حامل ہے۔ ان میں بڑی تعداد سیاست دانوں ریٹائرڈ اور حاضر سروس ججز، وکلا،پروفیسروں، بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے اداروں اور اسلامی دنیا میں انسدادِ اسلاموفوبیا سے منسلک اسکالرز اور عوام الناس کی ہے۔ اس پر عمران خان کی یہ پوزیشن اب کتنے ہی ٹھوس حقائق کے ساتھ اتنی آشکار ہے کہ اگر وہ الیکشن کی آلودگی ختم ہونے سے ویل مینڈیٹڈ وزیر اعظم بن گئے تو پاکستان کو فوری طور پر شدت سے سیاسی استحکام تو نصیب ہوگا ہی ملکی برباد معیشت کی فوری بحالی کی صورت بننے کے امکانات بھی روشن ہیں۔ ایسے میں اوورسیز پاکستانیوں کے بھی بہت سرگرم ہونے کا واضح امکان ہے۔(جاری ہے)

تازہ ترین