• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اوروں کی طرح چلا گیا وہ بھی....

کہ جیسے پنجاب کی تاریخ کراہ رہی ہو کہ جیسے ایک عہد ختم ہو گیا ہو۔اداروں کی طرح اس کا سوگ منانےکی روایت بھی ہم ضرور پوری کریں گے کہ ہم روایتیں نبھانے میں بڑے وضع دار او رماہر ہیں بلکہ سچ پوچھئے تو شوقین ہیں پر اس وقت وارث شاہ کے بول میرے ذہن میں گونج رہے ہیں۔

’’بھلا موئے تے وچھڑے کون میلے‘‘

جانے ہم زندوں کی قدر کرنا کب سیکھیں گے۔ ہم قریب المرگ انسانوں تک سے بے پروا ہو جاتے ہیں انہیں جانے سے نہیں روک سکتے۔ بلکہ اس وقت کا انتظار کرتے ہیں کہ کب کوئی سدھارے اور ہم اپنا روایتی ’’تعزیت چھلکاتا چہرہ‘‘ لئے جائیں اور مرنے والےکے ٹھنڈے ٹھار بدن کو کاندھا دے کر مٹی میں جا ملیامیٹ کریں۔ اس لمحے بھی ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ ’’کریں کج جبیں سے سرکفن‘‘ اور اس کی تشنہ کام آنکھوں میں قاتلوں کے نام تو پڑھ لیں۔ کبھی کبھی تو مجھے خود پر بھی گمان ہوتا ہے کہ کہیں میںبھی فنکاروں کی جان لینے والے قبیلے سے تو تعلق نہیں رکھتا۔ جیسے میں نے احمد راہی کو فراموش کر دیا۔ اسکی بیماری کی خبر سن کر بھی دو سطریں تک نہ لکھ سکا ۔ ایک آدھ سطر کی خبر کے ذریعہ اپنے اور اسکے دوستوں ، سجنوں کو دیار غیر میں اطلاع تک نہ دے سکا لیکن شاید نہیں، میں نے احمد راہی کی علالت کی منحوس خبر اپنے اخبار کو بھیجی تھی لیکن بوجہ شائع نہ ہو سکی۔ چلو میں تو اپنے حساب سے سرخرو ٹھہرا۔

شہرۂ آفاق گیتوں اور نغموں کا خالق ’’ترنجن‘‘ لکھ کرامر ہو گیا۔

احمد راہی امرتسر میں پیدا ہوا، پڑھائی کے دوران شاعری کے علاوہ آوارہ گردی کرتا رہا۔ ایک بار اس نے مجھے بتایا تھا ’’جب میرے والد کا انتقال ہوا اس وقت اگر میرے بھائی کے پاس ملازمت نہ ہوتی تو ہم رل جاتے۔ آج میں احمد راہی نہ ہوتا صرف غلام محمد ہوتا‘‘۔ پھر اس نے بتایا ’’ہال بازار امرتسر میں شیراز ہوٹل تھا۔ وہاں منٹو، باری علیگ اور ابو سعید قریشی وغیرہ بیٹھا کرتے تھے۔ منٹو کی گلی کوچہ وکیلاں میں اکثر میرا جانا ہوتا تھا۔ عارف عبدالمتین کے گھر کے بالکل سامنے منٹو کا گھر تھا۔ یار ! یہ سب جگہیں لاہور میں بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑتیں‘‘۔

ترقی پسند تحریک شروع ہوئی اس تحریک میں لاہور اور امرتسر نے ایک اہم رول ادا کیا تھا، اس وقت تمام پنجابی مسلمان اردو میں لکھ رہے تھےاور جب پاکستان بنا تو ہمارے پاس جدید پنجابی ادب کی کوئی روایت نہ تھی۔ پاکستان میں جدید پنجابی ادب کی ابتدا صفر سے ہو ئی۔ قیام پاکستان کے بعد دو تین برسوں میں احمد راہی کی شاعری کی کتاب ’’ترنجن‘‘ اور ’’نواز کی کہانیوں کی کتاب‘‘۔’’ شام رنگی کڑی‘‘ کے علاوہ اور کوئی کتاب نہیں تھی۔ ناول صفر، تنقید صفر، کہانیاں صفرترنجن ان دونوںپنجابوں کی مقبول ترین کتاب تھی، لوگ اسے امرتا پریتم کی کتاب ’’نویں رت‘‘ کے ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔ کئی برسوں تک ہم کبھی امرتا کے لفظوں میں اور کبھی راہی کے لفظوں میں آنسوئوں سے لکھی پنجاب کی خونیں تاریخ پڑھتے رہے۔ رومانس میں ڈوبی کالی تاریخ۔

احمد راہی کی عظمت یہ ہے کہ اس نے پنجابی ادب کی کلاسیکی روایت کو چھوئے بغیر فسادات کے تلخ تجربے کو ایک نیا طرز اظہار دیا۔ نیا اس مفہوم میں کہ جن لوک دھنوں اور گیتوں کو اس نے انسانی غارت گری کے موضوع کیلئے استعمال کیا انہیں اس مفہوم میں پہلے استعمال نہیں کیا گیا۔

راہی نے چھوٹے کینوس پر بڑا تجربہ کیا۔ بلاشبہ ایک کامیاب تجربہ کیا۔ ’’ترنجن‘‘ کے بعد عزت ، شہرت، مقبولیت اس کے قدم چومنے لگیں، ان دنوں دونوں پنجابوں میں راہی راہی کی صدا گونجتی تھی۔ اپنے اس تجربے کو اس نے فلم میں کیش کیا۔ خوب داد سمیٹی اور پھر وہیں کا ہو کر رہ گیا۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ ترنجن ایم اے کے کورس کے حصہ بن گئی۔ راہی سے میری بہت سی یادیں وابستہ ہیں ترقی پسند ادب کے علاوہ فلم نگری میں بھی میرا اس کا ساتھ رہا۔ یہ سب باتیں پھر کسی وقت کیلئےاٹھا رکھتے ہیں۔

راہی کی زندگی کا سفر امرتسر سے شروع ہوا تھا۔ لاہور کے ریواز گارڈن سے ہوتا ہوا میوہسپتال کے لائل پور وارڈ پر جا ختم ہوا اور پھر قبرستان میانی صاحب کی ایک قبر اسے اپنی گود میں لینے کیلئے بے چین ہو اٹھی۔ ’’چن ماہیا، تیری راہ پئی تکنی آں‘‘۔ پنجابی ادب کا رانجھا اور صاحباں کا مرزا۔ ایک کہانی کار، گیت نگار ، نغمہ نویس جس کے گلے میں ہزار سے زائد گیتوں کی مالا پڑی ہے۔ جس کے کریڈٹ میں وہ فلمیں ہیں جن کے بغیر پاکستانی فلمی تاریخ ادھوری اور نامکمل سمجھی جاتی ہے۔ وہ احمد راہی جو مرنے سے پہلے لاہور کے خیراتی میوہسپتال کے لائل پور وارڈ میں بے حس معاشرے کے دیئے ہوئے تحفے، دمے ،لقوہ اور ناکارہ پھیپھڑے لئے ہوئے موت کے انتظار میں دن گنتا رہا۔ نہ معاشرے نے اس کا حال پوچھا اور نہ ارباب اختیار کے کانوں میں اس کی علالت کی خبر آئی۔ وہ قوم کا اثاثہ تھا مگر قوم نے وہ اثاثہ خردبرد کر لیا اور اس کے ساتھ ہی سنجے دل والے بوہے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گئے۔

’’بھلا موئے تے، چھڑے کون میلے‘‘

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین