تمام سیاسی جماعتوں نے وفاق میں حکومت بنانے سے انکار کر دیا جبکہ ان کی جانب سے اپوزیشن میں بیٹھنے پر اصرار کیا جا رہا ہے۔
کیا پیپلز پارٹی اور ن لیگ مشاورت سے کسی نتیجے پر پہنچ پائیں گی؟ یا معاملہ دوبارہ الیکشن کی طرف جائے گا؟
اس حوالے سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی کوآرڈینیشن کمیٹیوں کا اجلاس آج ہو گا۔
گزشتہ روز مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کی زیرِ صدارت جاتی امراء میں ہوئے پارٹی رہنماؤں کے اجلاس کی اندرونی کہانی میں وفاق میں حکومت بنانے کے حوالے سے ن لیگ میں 2 آراء سامنے آئیں۔
کچھ ن لیگی رہنماؤں نے وفاق میں حکومت لینے کی مخالفت کرتے ہوئے صرف پنجاب میں حکومت بنانے کی تجویز دی، جبکہ بعض رہنماؤں نے وفاق میں حکومت لینے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کو بچانے کی ضرورت ہے۔
شرکائے اجلاس نے نواز شریف کو تجویز دی کہ ہمیں وفاق نہیں پنجاب پر فوکس کرنا چاہیے۔
نواز شریف کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ وفاقی حکومت بنانے کے لیے کسی اتحادی جماعت کی غیر اصولی بات کو نہیں ماننا چاہیے۔
احسن اقبال نے کہا کہ مرکز میں حکومت بنا کر ملک کو مستحکم بنائیں گے۔
سعد رفیق نے کہا کہ وفاق میں حکومت کی تشکیل پارلیمان میں موجود تمام جماعتوں کی مشترکہ ذمے داری ہے، یہ کانٹوں کا تاج اپنے سر سجانے کا شوق نہیں۔
سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے ہے کہ پنجاب میں باآسانی حکومت بنا سکتے ہیں۔
دوسری جانب تحریکِ انصاف نے اعلان کیا ہے کہ وہ وفاق اور پنجاب میں اپوزیشن میں بیٹھے گی۔
پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ عمران خان کی ہدایت پر مرکز اور پنجاب میں اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
رؤف حسن کا کہنا ہے کہ دھاندلی ہمیشہ ہوتی ہے لیکن اس وقت دھاندلہ ہوا ہے، ہم سے 85 سیٹیں چھینی گئیں، دھاندلی پر PTI کا وائٹ پیپر بھی آ گیا۔
ادھر پیپلز پارٹی پہلے ہی اپوزیشن میں بیٹھنے کا عندیہ دے چکی ہے۔
پیپلز پارٹی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی نے اس حوالے سے کہا ہے کہ ہم ن لیگ کو وزیرِ اعظم کا ووٹ دے کر بھی اپوزیشن میں بیٹھ سکتے ہیں۔
’جیو نیوز‘ کے پروگرام ’جیو پاکستان‘ میں گفتگو کرتے ہوئے فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی ملاقات میں اس حوالے سے بات چیت ہوئی ہے، عددی برتری تو آزاد امیدواروں کو بھی حاصل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہیں، سی ای سی کے سامنے تجاویز رکھی جائیں گی، فیصلہ سی ای سی میں ہو گا۔
فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ اگر پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو وزیرِ اعظم نہیں بنتے تو پیپلز پارٹی کو اپوزیشن میں بیٹھنا چاہیے، پی ڈی ایم پارٹ ٹو آتی ہے تو میرے خیال میں اچھے طریقے سے نہیں چل سکتے۔
دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف بھی 8 فروری کے انتخابات کو مسترد کرتے ہوئے اپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلان کر چکی ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اس انتخابات میں دھاندلی کے ریکارڈ بنے، انتخابی عمل یرغمال بنا رہا، الیکشن کو شفاف قرار دینے کے الیکشن کمیشن کے بیان کو مسترد کرتے ہیں، اب فیصلے ایوان میں نہیں میدان میں ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ مرکزی مجلسِ عاملہ نے انتخابی نتائج کو مسترد کر دیا ہے، انتخابی دھاندلی نے 2018ء کی انتخابی دھاندلی کا ریکارڈ بھی توڑ ڈالا ہے۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ پارلیمنٹ نے اپنی اہمیت کھو دی ہے، پارلیمنٹ میں شرکت احتجاج کے ساتھ ہوگی، جے یو آئی پارلیمانی کردار ادا کرے گی لیکن اسمبلیوں میں شرکت تحفظات کے ساتھ ہو گی۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ جے یو آئی کے خلاف سازش عالمی اسلام دشمن قوتوں نے کی، اگر اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ الیکشن ٹھیک ہوئے ہیں تو 9 مئی کا بیانیہ دفن ہو گیا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے یہ بھی کہا تھا کہ نواز شریف کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھیں۔