• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں اِس وقت نیک روحوں کا جمعہ بازار لگا ہے، اخلاص و ایمان کی دولت سے مالا مال لیڈران عوام کی خدمت کیلئے تڑپ رہے ہیں،آئین اور قانون کی پاسداری کی قسمیں کھائی جا رہی ہیں، کہیں سے فتح مکہ کا اعلان ہو رہا ہے تو کسی سِنگھاسن سے ملک کو بچانے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ یقین مانیںمیں تو بہت خوش ہوں کہ اِس قوم کے نصیب جاگے اور بالآخراسے اتنے مخلص، با ضمیر، راست باز اور پاک دامن رہنما میسر آئے۔ نہ کسی کے دامن پہ کوئی چھینٹ ہے نہ خنجر پہ کوئی داغ، ایسے کرموں والے لیڈر تو صدیوں بعد قوموں کی زندگی میں آتے ہیں۔ اور لیڈر تو ایک بھی کافی ہوتا جبکہ ہمارے پاس تو پوری فوج ہے۔ اب ایسے میں بھی کوئی خوش نہ ہو تو یہ نا شکری کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ میرے مُرشِد نے مجھے ایک بات سکھائی تھی کہ کسی کے دعوے پر یقین کرنے سے پہلے اُس کا عمل ضرور دیکھ لینا۔ یہ بات مجھے زندگی میں دیر سے سمجھ آئی، تب تک میں کافی نقصان اٹھا چکا تھا لیکن اُس کے بعد سے جب بھی میں نے یہ کلیہ آزمایا ہے، حیرت انگیز نتائج نکلے ہیں۔ اِس سے پہلے کہ یہ کلیہ اپنے ملک پر لاگو کریں، پہلے اسے کسی دوسرے ملک پر استعمال کر کے دیکھتے ہیں، سمجھنے میں آسانی ہو گی۔

”میرے عزیز ہم وطنو، آج کا دن ہماری تاریخ کا سیاہ دن ہے، آج ہماری سرزمین پر جو دہشت گرد حملہ ہوا اُس کی مکمل چھان بین کی جائے گی۔ ہر ایک سے جواب طلبی ہو گی اور اِس جواب طلبی سے میں خود کو بھی مستثنیٰ نہیں سمجھتا، لیکن یہ سب کچھ جنگ کے بعد ہو گا۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے، میں ملک کے مستقبل کو یقینی بنانے کا ذمہ دار ہوں اور فی الحال یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں اپنی ریاست اور عوام کو اپنے دشمنوں پر شکست دینے والی فتح کی طرف لے جاؤں.... ہم مل کر لڑیں گے اور مل کر جیتیں گے۔‘‘ یہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہوکی تقریر کا اقتباس ہے جو اُس نے حماس کے حملے کے بعد کی۔ اگر کوئی مخلوق مریخ سے آ کر یہ تقریر سنے تو اسے لگے گا کہ واقعی بنجمن نیتن یاہو ایک عظیم رہنما ہے جو وزیر اعظم ہونے کے باوجود خود کو قانون سے ماورا نہیں سمجھتا بشرطیکہ اُس مخلوق کو نیتن یاہو کے اُن اقدامات کا علم نہ ہو جو اُس نے اسرائیل میں اعلیٰ عدلیہ کے پر کاٹنےکیلئے کیے تھے۔ چلیے اسے چھوڑ دیں، وہ اسرائیل کا داخلی معاملہ ہے، خارجہ محاذ پر اسرائیل کے بیانات اٹھا کر دیکھ لیں۔ اِن بیانات کا لب لباب یہ ہے کہ اسرائیل عالمی قانون کی پاسداری کرتا ہے، جنگی قوانین کا احترام کرتا ہے، جمہوری روایات کا علمبردار ہے، وغیرہ وغیرہ۔ کیا اسے سچ مان کر اسرائیل کی دہشت گردی کو جواز فراہم کیا جا سکتا ہے؟ مزید آگے بڑھتے ہیں۔ ایکس پر میں ایک کھاتے کا تعاقب کرتا ہوں (بولے تو ایک اکاؤنٹ فالو کرتا ہوں) جو دنیا بھر میں انسانوں کیلئے آزادی، مساوات اور حق خود ارادیت کیلئے کوشاں ہے، گزشتہ دنوں اِس اکاؤنٹ نے کمال کی ٹویٹ جاری کی ۔

”نازی کہا کرتے تھے کہ اُن کی نسل سب سے اعلیٰ ہے۔

صہیونی بھی کہتے ہیں کہ اُن کی نسل منتخب کردہ ہے۔

نازیوں نے یہودیوں سے زمین اور جائیداد چرائی۔

صہیونیوں نے فلسطینیوں سے زمین اور املاک چھینیں۔

نازیوں نے یہودیوں کوبھوکا مارا۔

صہیونی، فلسطینیوں کو بھوکا ماررہے ہیں۔

نازی، یہودیوں کے ساتھ چوہوں اور کیڑوں مکوڑوں کی طرح برتاؤ کرتے تھے۔

صہیونی بھی فلسطینیوں کے ساتھ ایسا ہی غیر انسانی برتاؤ کر رہے ہیں۔

نازیوں نے یہودیوں کی نسل کواپنی سرزمین سے بے دخل کردیا۔

صہیونی اب فلسطینیوں کی نسل کُشی کرکے انہیں بے دخل کر رہے ہیں ۔

نازی، مسلسل پروپیگنڈا کرنے والے۔

صہیونی،مسلسل پروپیگنڈا کرنے والے۔

نازی بھی یورپ سے کہتے تھے تم لوگ اِن یہودیوں کو کیوں نہیں لے لیتےجن کے درد میں ہلکان ہوئے جا رہے ہو۔

صہیونی بھی عرب ممالک سے یہی پوچھتے ہیں کہ تم اِن فلسطینیوں کو گود کیوں نہیں لے لیتے جنہیں ہم بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔

نازی کہا کرتے تھےکہ یہودی بچے بھی برابر کے مجرم ہیں۔

صہیونی بھی یہی کہتے ہیں فلسطینی بچے بھی برابر کے مجرم ہیں۔

نازیوں نےیہودیوں کے خلاف نسل کشی کی۔

صہیونی اب فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کر رہے ہیں۔‘‘

میرا خیال ہے کہ اِس کی مزید تشریح کی ضرورت نہیں۔ دعوے اور حقیقت کے درمیان فرق کو بے نقاب کرنے کا اِس سے بہتر اظہار میں نے آج تک نہیں پڑھا۔ یہ مثال دینا اِس لیے ضروری تھا کہ اسرائیل کے بارے میں تھی لہٰذا سمجھنے میں آسانی ہو گئی۔ اپنے ملک میں واپس آتے ہیں۔ یہاں نیکی کے پُتلے اتنی زیادہ تعداد میں دستیاب ہیں کہ ہر کسی پر علیحدہ سے یہ کلیہ استعمال کرنا ممکن نہیں ہے۔ ویسے بھی یہاں آپ جونہی کسی لیڈر کے دعوؤں کی پڑتال شروع کریں گے اُس کے چاہنے والے لٹھ لے کر آپ کے پیچھے پڑ جائیں گے۔ لیکن اِس کے باوجود کچھ نہ کچھ کلمہ حق تو کہنا بنتا ہے ’ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے۔‘ اِس کا صرف ایک طریقہ ہے کہ مارکیٹ میں اِس وقت جتنے بھی مہان کلاکار ہیں اُن کے بیانات باآواز بلند پڑھے جائیں، آپ کو لُطف آجائے گا، یوں لگے گا جیسے اقوام متحدہ یا یورپین یونین کا انسانی حقوق کا چارٹر پڑھا جا رہا ہے۔ مگر اُس کے ساتھ ہی اِن مہان ہستیوں کے اقدامات کی فہرست بھی نکال لی جائے تو طبیعت مزید بشاش ہو جائے گی، اُن کے دعوؤں اور اعمال میں لگ بھگ اتنا ہی فرق نکلے گا جتنا اسرائیل کے امن کی حمایت میں جاری کیے جانے والے بیانات اور عملاً جنگی اقدامات میں ہے۔ ممکن ہے آپ میں سے کچھ لوگوں کو اسرائیل کی مناسبت سے یہ بات سخت لگے، لیکن حاشا و کلامقصد کسی کے محبوب قائد کو اسرائیل سے تشبیہ دینا ہرگز نہیں، صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ اپنی اجتماعی اور ذاتی زندگیوں میں اگر آپ اِس کلیے کو یاد رکھیں گے کہ یہ مت دیکھو وہ کیا کہہ رہا ہے بلکہ دیکھو کہ وہ کیا کر رہا ہے، تو آپ کی دونوں زندگیاں سہل ہو جائیں گی۔ آزمائش شرط ہے!

تازہ ترین