• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹیلی وژن پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے دوسوال بار بار دکھائے جارہے تھے۔’’کیا وفاقی حکومت بن گئی ہے ؟۔ وزیر اعظم کون ہیں ؟۔میں نےیہ کلپ دیکھ کر اپنے صحافی دوست سے پوچھاکہ کیا چیف جسٹس کیلئے اخلاقی طور پرضروری نہیں کہ وہ بحیثیت پاکستانی اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں ۔چلیں خودانہوں نے ووٹ نہیں ڈالا تو کیا گھر میں موجودکسی شخص نے بھی ووٹ نہیں کاسٹ کیا ۔ کیا باورچی ، مالی ،ڈرائیوروغیرہ بھی ووٹ ڈالنے نہیں گئے ۔کوئی دوست کوئی ہمسایہ کسی سے بھی الیکشن کی شام کوئی ملاقات ،کوئی بات نہیں ہوئی ۔کیا انہوں نےٹیلی وژن بھی آن نہیں کیا۔دوست نےاندازہ لگاتے ہوئے کہاکہ ’’ممکن ہے وہ اپنے گائوں گئے ہوئے ہوں اور گائوں میں کیبل نیٹ ورک تو ہیں ہی نہیں ۔اس لئے پتہ نہیں چل سکا ہوگا ‘‘ ۔ میں نے اپنے دوست کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہاکہ کیبل نیٹ ورک ملک کے صرف 35 فیصد لوگوںکو حاصل ہے ۔65فیصد لوگ اب بھی صرف پی ٹی وی دیکھتے ہیں اور الیکشن 2024کی پی ٹی وی کی ورچوئل ٹرانسمیشن اتنی زیادہ موثرتھی کہ شہروں میں بھی لوگ اس پر نتائج دیکھتے رہے ہیں ۔ میرےدوست نے میری بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ’’بے شک جب سے مبشر توقیر ایم ڈی پی ٹی وی لگائے گئے ہیں ۔وہاں کے معاملات بہتری کی طرف رواں دواں ہیں ۔پچھلے دنوں پی ٹی وی پر ملکہ ترنم نورجہاں کے حوالے سے موسیقی کا ایک بہت شاندار پروگرام ہوا۔میری اتفاق سے نظر پڑی تو مجھے پورا دیکھنا پڑ گیایہی اس کی کامیابی کا ثبوت ہے ۔بڑے بڑے گلوگار آتے رہےاور نورجہاں کو ٹریبوٹ پیش کرنے کیلئے لائیو انکے گانے گاتے رہے ‘‘۔ میں نے ہنس کر کہا ’’بانی پی ٹی آئی کو بھی جیل میں صرف پی ٹی وی دیکھنے کی اجازت ہے ۔سنا ہے انہوں نے اسے ’’اذیت ‘‘ قرار دیا ہے۔دوست کہنے لگا’’انہیں چاہئے تھا کہ اپنے دورِ اقتدار میں اسے ’’بی بی سی ‘‘بنا جاتے تو اس اذیت سے نہ گزرنا پڑتا۔میں نے کہا ۔میرے نزدیک تو پی ٹی وی کا مسئلہ اس دن سے خراب ہوا ہے جب سے پی ٹی وی نیوز شروع ہوا ہے۔اہل اقتدار کی توجہ اس طرف مبذول ہو گئی اور وہ اصل پی ٹی وی کو بھول گئے ۔نیوزچینل پی ٹی وی جیسے بڑے ادارے میں صرف اتنی حیثیت رکھتا ہے جیسے ماضی میں پی ٹی وی پر چلنے والا نو بجے کا خبر نامہ ہوا کرتا تھا۔پی ٹی وی پر تو پاکستانی تہذیب کا چہرہ ہوا کرتا تھا ۔یہ پاکستانی کلچر کے خدو خال کا نام تھا ۔ پی ٹی وی کا ڈرامہ اردودنیا کا مقبول ترین ڈرامہ تھا۔راگ رانگ ، غزل ،گیت اور قوالی تک میںیہ اپنی ایک علیحدہ پہچان رکھتا تھا ۔نیلام گھر جیسے اسٹیج شو ہوا کرتے تھے ۔اندھیراا جالا جیسی سیریز چلا کرتی تھیں ۔دوست بولا۔ایسا نہیں کہ اب پی ٹی وی کے پاس کچھ نہیں ، اس وقت بھی چاروں صوبوں کے علاوہ آزاد کشمیر اور ملتان میں پاکستان ٹیلی وژن کے اسٹیٹ آف دی آرٹ اسٹوڈیوز اور عمارتیں موجودہیں،وہاں تک اس کے بوسٹر لگے ہیں جہاں انسان مشکل سے پہنچتے ہیں ۔ پاکستانی زبانوں کی نشریات اب بھی صرف یہیں دکھائی دیتی ہیں بلکہ اب تو پی ٹی وی نےملتان میں سرائیکی زبان کا پورا چینل شروع کر دیا ہے ۔موجودہ ایم ڈی نے کوئٹہ سے ہزارگی ،گلگت بلتستان سے کھیوا، چترالی اور بلتی زبان کے پروگرام بھی شروع کرا دئیے ہیں ۔ ہزاروں لوگ یہاں کام کرتے ہیں ۔اس وقت بھی پی ٹی وی اکیڈمی سے بہترفلم اور ٹی وی کی تربیت دینے والا کوئی اور ادارہ موجودنہیں ،پی ٹی وی ایک مدر چینل کی حیثیت رکھتا ہے۔یہاں جس بات کی ضرورت تھی وہ تبدیلی نئے منیجنگ ڈائریکٹر سید مبشر توقیر شاہ لے آئے ہیں ۔ انہوں نے ہی پاکستان ٹیلیویژن کے پیشہ ور پروڈیوسرز اور منیجرز کو با اختیار بنا کر میرٹ پر فیصلوں کا اختیار دیا ہے۔پی ٹی وی میں دوبارہ اپنی پروڈکشن شروع ہوئی ہے ۔آپ بھی تو پی ٹی وی کیلئے پھر سے ڈرامے لکھنے لگے ہیں ۔ اسی طرح پرانے لوگ بھی واپس لائے جارہے ہیں ۔اختر وقار عظیم جیسی شخصیت اب پھر پی ٹی وی کے معاملات خاص طور پرڈرامہ کے معاملات دیکھ رہی ہے ‘‘۔ میں نے کہا ’’اللہ آپ کی زبان مبارک کرے مگر پی ٹی وی کو دوبارہ زندہ کرنے کا کام وقت چاہتا ہے ۔یہاں روز کوئی نہ کوئی ایسی تبدیلی ہوجاتی ہے کہ آگےبڑھتا ہوا کام پھر سے رک جاتا ہے ۔اس ادارے کی حالت بھی بالکل پاکستان جیسی ہے ۔ بقول منیر نیازی

منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے

کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

دوست نے کہا ۔’’اس بات سے کوئی اختلاف نہیں مگر مجھے یقین ہے کہ اگر مبشر توقیر کچھ عرصہ ایم ڈی رہ گئے تو پی ٹی وی کےحالات بہت بہتر ہوسکتے ہیں ‘‘۔ میں نے کہا۔’’میرا خیال ہے کہ اگر پی ٹی وی نیوز کو بالکل علیحدہ کرکے حکومت ِ وقت کے حوالے کردیا جائے کہ وہ وہاں جو چاہےآن ائیر کراتی رہے مگر باقی معاملات میںدخل اندازی نہ کرے تو شاید کوئی راستہ نکل آئے ۔ پی ٹی وی نیوز کو جداکرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ حکومتیں چاہتی ہیں کہ وہاں بس وہی کچھ دکھایا جائے جو وہ چاہیں۔ اس وقت پورےملک میں الیکشن کمیشن کے خلاف احتجاج جاری ہے مگر پی ٹی وی اسے دکھانے سے قاصر ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کا پی ٹی وی کے پاس کوئی حل نہیں۔

تازہ ترین