• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عشرت زاہد

نیلم بس سے اُتری اورمتلاشی نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔ آج وہاں کوئی تانگا یا فورسیٹر نظر نہیں آ رہا تھا۔ صرف بُھٹّے والے بابا کا ٹھیلہ ایک جانب کھڑا دکھائی دیا۔ وہ اُسی طرف آ گئی۔ پوچھنے پر بابا نے بتایا کہ ’’آج کی سخت سردی اور دھند کی وجہ سے کسی کے آنے کی اُمید کم ہی تھی، اس لیے شاید سب ہی جلدگھر چلے گئے ہیں۔ اور مَیں بھی بس گھر جانے کی تیاری ہی میں تھا۔‘‘ وہ سخت پریشان ہو گئی، حالاں کہ اُس کا گاؤں بہت دُور نہیں تھا، تانگے یا فورسیٹر سے بیس منٹ میں پہنچ جاتی تھی۔ 

اُس کی پریشانی بھانپ کر بابا نے مشورہ دیا کہ’’پیدل ہی چلی جائو بیٹا! یہاں اکیلی کھڑی کیا کروگی؟‘‘ عصر کا وقت تھا اور جلد ہی اندھیرا چھانے والا تھا۔ اُس نے متذبذب نگاہوں سے ایک نظر کچّے رستے کی طرف دیکھا اور پھر دل ہی دل میں حساب لگایا کہ کم از کم بھی ایک گھنٹہ لگ سکتا تھا۔ بہرحال، وہ اللہ کا نام لےکر تیزی سےاپنےگاؤں کے رستے پر چل پڑی۔ وہ بہت تیز تیز قدم اُٹھا رہی تھی۔ اُسے ہر صُورت مغرب سے قبل گھر پہنچنا تھا کہ اُس کے دونوں بچّےگھر پراُس کا انتظار کر رہےتھے۔ غضب کی ٹھنڈ ہونے کے باوجود اُس کا جسم ہلکا ہلکا تپ رہا تھا۔ 

وجہ شاید اُس کی تیزرفتاری تھی یا پھرکئی دن سے جاری میعادی بخار، جو سورج ڈوبتے ہی اس کے جسم میں آ موجود ہوتا اور رات بھر کچھ آرام ملنے کی وجہ سے صبح رخصت ہو جاتا۔ جیسے اس کا زندگی کا ساتھی ہو۔ سبب جو بھی ہو، اُسےجسم کی تپش کے باعث سردی کی شدّت محسوس نہیں ہورہی تھی۔ اِس خطرناک دھند ہی کی وجہ سے شہر سے گاؤں کے کچّے راستے تک پہنچانے والی بس کے ڈرائیور نے بھی بس بہت سُست رفتاری سےچلائی تھی، شاید حادثے کے ڈر سے۔ کیوں کہ آج دھند کی وجہ سے حدِ نگاہ صفر کے لگ بھگ تھی۔ بالکل نزدیک کی چیز نظر آتی، لیکن ایک ہاتھ دُور کا منظر بھی دھندلایا ہوا تھا۔ بس کی سُست رفتاری کی وجہ سے اُسے پہلے ہی خاصی دیر ہو چُکی تھی۔

نیلم 25، 26 سال کی گندمی رنگت والی دبلی پتلی اور دراز قامت لڑکی تھی۔ اُس نے سفید چادر کو اچھی طرح اپنے گرد لپیٹا ہوا تھا۔ پیروں میں کینوس کے جوتے، ایک کندھے پر پرس اور دوسرے ہاتھ میں ایک شاپنگ بیگ تھا، جس میں بچّوں کے لیے کچھ کھانے کی چیزیں تھیں، ایک میٹھی ڈبل روٹی اور جیلی کی بوتل۔ گاؤں میں یہ چیزیں نہیں ملتی تھیں۔ ڈبل روٹی ملتی تو تھی، مگر اکثر باسی ہوتی۔ 

یہ اس کے بیٹے گڈو کی فرمائش تھی۔ وہ بےچارہ کئی دن سے ٹائیفائڈ کی وجہ سے بستر سے لگا ہوا تھا۔ کچھ بھی کھا پی نہیں رہا تھا۔ آج صبح جب اس نے ڈبل روٹی کھانے کی خواہش کی تو وہ خوشی سے نہال ہو گئی اور اُس سے وعدہ کر لیا کہ آج واپسی میں ضرور لے کر آئوں گی۔ بڑی بیٹی مریم بہت صبر والی اور سمجھ دار تھی۔ اُس نے کبھی کسی چیز کی ضد نہیں کی تھی۔ وہ دونوں بچّے، ماسی نذیراں کے پاس چھوڑ کر آتی تھی، جو اس کی پڑوسن تھی۔ ماسی کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی، اِس لیے وہ اُس کے بچوں کا خیال بہت پیار سے رکھتی۔

نیلم ایک اسکول میں پرائمری ٹیچر تھی۔ اللہ کے کرم سے اُس کا بی اے بی ایڈ کام آگیا تھا، ورنہ آج کل سرکاری نوکری کہاں ملتی ہے۔ راستہ تقریباً سُنسان ہی تھا۔ اِکّا دُکّا موٹرسائیکل یا کبھی کوئی سائیکل گزر جاتی۔ قدموں کے ساتھ ساتھ اُس کا دماغ بھی تیز رفتاری سے چل رہا تھا۔ اُس کی زندگی بھی تو اِس رستے ہی کی طرح ویران اور بہت سے تفکّرات کی دھند سے اَٹی ہوئی تھی۔ رب ہر فرد کی تقدیر الگ لکھتا ہے۔ 

کہیں کوئی بہت آرام و سکون سے زندگی گزارتا ہے، تو کچھ افراد کے لیے، قدم قدم پر مصائب کے پہاڑ کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک سَر کر لیں تو دوسرا سامنے آجاتاہےاور کوئی ساتھ دینے والا بھی نہیں ہوتا۔ سوائے رب کے کوئی سہارا نہیں ہوتا۔وہ بھی توایک ایسا ہی کم زور وجود رکھتی تھی، اِسی لیے اکثر اُس پرجھنجھلاہٹ بھی طاری ہوجاتی کہ ’’آخر مَیں ہی کیوں؟‘‘اے کاش! اللہ میرے لیے بھی کچھ آسانیاں رکھ دیتا۔ لیکن پھر فوراًہی سنبھل جاتی، توبہ کرلیتی اور نئے عزم سے زندگی کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوجاتی۔

ہاتھ میں پکڑا ہوا شاپر لگاتار ایک ہی ہاتھ میں ہونےسےکچھ بھاری محسوس ہوا۔ اُسے دوسرے ہاتھ میں منتقل کرتے ہوئے وہ دوبارہ ماضی کے دھندلکوں میں غرق ہو گئی۔ وہ اور حبیب بچپن سےساتھ پلے بڑھے تھے۔ دونوں گھرانوں کے آپس میں بہت اچھے تعلقات تھے۔ اس لیے شادی طے ہونے میں بھی کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ کوئی ظالم سماج درمیان میں نہیں آیا۔ شادی کے بعد کے دن کتنے خُوب صُورت تھے۔ حبیب اُس کو بہت چاہتا تھا، لیکن قسمت میں دونوں کازیادہ لمبا ساتھ نہیں لکھا تھا۔ شادی کے صرف تین سال بعد حبیب کی اچانک موت نے اُس کو پاگل سا کر دیا تھا۔ 

تب اُن کی بیٹی دو سال کی تھی اور بیٹا توابھی دنیا میں آیا بھی نہ تھا۔ وہ باپ کے گزر جانے کے تین ماہ بعد پیدا ہوا۔ ساس نے سوا مہینہ بھی ساتھ نہ رکھا۔ منحوس کہہ کر گھر سے نکال باہر کیا۔ کتنی منّتیں سماجتیں کی تھیں اُس نے کہ ’’اتنا بڑا گھر ہے، کسی کونے میں پڑی رہوں گی، کسی نوکرانی کی طرح گھر کےسارے کام کرلوں گی۔‘‘ حالاں کہ وہ پڑھی لکھی تھی، مگر وہاں تو سب کے دل پتّھرہوچُکےتھے۔ بس ایک سُسرتھے، جنہوں نےساس کوبہت روکنا چاہا، مگر اُس جلاّد صفت خاتون نے اُن کی بھی ایک نہیں سنی۔ 

اُس کے سُسرال کا گھر کافی بڑا تھا اور حبیب ان کا اکلوتا لڑکا تھا، پھر بھی انہوں نے رحم والا معاملہ نہیں کیا، کیوں کہ وہ حبیب کی سوتیلی ماں تھیں اوراُن کوسوتیلے بیٹے کی بیوی بچّوں سے کوئی ہم دردی نہیں تھی۔ اُس کے میکے کے نام پر بھی بس ایک بھائی ہی تھا، جو پہلے ہی چار بیٹیوں کا باپ تھا۔ والدین کا انتقال ہو چُکا تھا۔ بھاوج بُری نہیں تھی، مگر نند اپنے دو بچّوں کے ساتھ مستقل اُن کے گھر رہے، اس کی گنجائش گھر میں تھی، نہ ہی دل میں۔ شروع میں بہت سی مشکلات کے باوجود کچھ عرصہ وہیں رہ کر اُس نے اپنے آپ کو سنبھالا تھا۔ نوکری تلاش کی۔ 

پہلے پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتی رہی۔سرکاری نوکری کےلیے درخواست دے رکھی تھی، پھر اللہ کے حُکم سے اُن ہی دِنوں سرکاری اداروں میں ملازمت سے پابندی ہٹی اور اُس کو شہر کے ایک اچھےسرکاری اسکول میں ملازمت مل گئی۔ اس کام کے لیے بہت بھاگ دوڑ کرنی پڑی۔ کچھ پیسے بھی دینے پڑے، لیکن اُس نے ہمّت نہیں ہاری۔ بچّے سنبھالنے کا مسئلہ آیا، تب بھاوج نے ڈھکے چُھپے الفاظ میں کہہ دیا کہ اُس سے یہ نہیں ہو سکےگا۔ بھائی بھی مجبور تھا، ناچاراُسے کرائے کے گھر میں اپنا انتظام کرنا پڑا۔ اور اب وہ اپنا گھرخُود ہی سنبھال رہی تھی۔ بس کچھ دن کی بات ہے۔

بچّے ذرا اسکول جانے کے قابل ہو جائیں، پھر تومیرے ساتھ ہی جایا کریں گے۔ اور میرے ساتھ ہی واپسی ہوگی، ان شاءاللہ۔ وہ اپنے آپ کو تسلی دیتی۔ اےکاش! حبیب اتنی جلدی جدا نہ ہوتا۔ کتنی خُوب صُورت زندگی تھی اس کےساتھ۔ اُن دنوں اُسے موسمِ سرما بہت بھاتا تھا۔ ہر وقت چھائی رہنے والی دھند اُسے خواب ناک لگتی۔ لیکن اب زہر لگنے لگی تھی۔ کئی کئی دن سورج نہ نکلتا، جس سے وہ شدید کوفت میں مبتلا ہو جاتی۔ اس کے کان میں گھنٹیوں کی آوازیں آئیں، تو وہ اپنے خیالات سے چونک گئی۔ سامنے سے کوئی کسان اپنے مویشی لےکر آ رہا تھا۔ یہ وقت تمام چرند پرند کے گھر واپسی کا تھا۔

مغرب کا وقت تیزی سے قریب آ رہا تھا۔ اور گاؤں کا فاصلہ بھی بہت کم رہ گیا تھا۔ اُس نے ٹھنڈی ہوا کے تیزجھونکے کی وجہ سے جھرجھری سی لی اور اپنی چال مزید تیز کر دی۔ گاؤں کی اِکّا دُکّا ٹمٹماتی روشنیاں دُور سے نظر آنا شروع ہو گئی تھیں۔ گو کہ دھند کی وجہ سے بہت مدھم تھیں۔ وہ اپنی ہی سوچ میں مگن چلی جا رہی تھی۔ ایسے میں ایک موٹر سائیکل پاس سے گزری۔ وہ پھر چونک گئی تھی۔ اُس پر دو افراد سوار تھے۔ سردی کے مارے چادروں کی بکّل مارے ہوئے تھے۔ کوئی مزدور وغیرہ ہوں گے۔ اُس کے دل میں ہوک سی اُٹھی۔ ’’کاش! مجھے بھی کوئی سواری میسّرآجاتی۔ میرے بچّے انتظار کر رہے ہوں گے۔ خیر، اللہ جی میرے دن بھی جلد ہی پھیر دینا۔ آسانی کر دینا یا رب۔‘‘ وہ دل ہی دل میں دُعا گو تھی۔

اتنے میں سامنے سے پھر روشنی نظر آئی اور ایک موٹر سائیکل اس کے سامنے آ کر رک گئی۔ یہ تو شاید وہی لوگ تھے، جو ابھی پاس سے گزرے تھے۔ یہ کیوں پلٹ کر آئے ہیں؟ اُس کے دماغ نے خطرے کی گھنٹی بجائی۔ راستہ تنگ تھا۔ اُس نے کنارے ہو کےگزرنا چاہا۔ لیکن پیچھے بیٹھا ہوا شخص اُتر کر سامنے آ گیا۔ وہ پوری جان سے لرز اُٹھی۔ چیخ کر بولی۔ ’’دیکھو میرا راستہ چھوڑدو، میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ وہ اوباش نوجوان اور قریب ہوا۔ پہلے مُسکرایا پھر بولا۔ ’’تم خُود تو ہو ناں…ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے۔ فوراً بیٹھ جائو، ہمارے ساتھ بائیک پر۔‘‘پھرغرّا کربولا،’’دیکھ!شور نہ مچانا۔‘‘ اور ساتھ ہی نیلم کا ہاتھ پکڑنا چاہا۔ نیلم نے آئو دیکھا نہ تائو۔ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے شاپر کو مضبوطی سے پکڑ کر، زور سے اُس کے منہ پر دے مارا اور اندھا دھند بھاگ کھڑی ہوئی۔ نوجوان اس اچانک حملے کے لیے بالکل تیار نہ تھا۔ شاپر میں رکھی جیلی کی بوتل کی بھاری ضرب سے اُس کے منہ پر اچھی خاصی چوٹ لگی تھی۔ وہ موٹرسائیکل سے جا ٹکرایا۔ جس سے موٹر سائیکل اپنے سوار سمیت ایک طرف لڑھک گئی۔

نیلم اپنی پوری جان لگا کر بھاگتی ہوئی، اُس گہری دھند میں کہیں غائب ہو چُکی تھی۔