فقیہہ شہزاد
ہرے بھرے درختوں کے درمیان بہتی ندی کا شفّاف پانی اور درختوں کی آپس میں سرگوشیاں ماحول پر طاری گہرا سکوت توڑنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ سیاہ آسمان پر تارے جگمگا رہے تھے ، جب کہ چاندنی میں ڈُوبے پہاڑ اس خواب ناک منظر کو مزید دِل کش کر رہے تھے۔ ہم دونوں ندی کے کنارے ایک بینچ پر خاموش بیٹھے ماحول سے لُطف اندوز ہو رہے تھے۔ مُجھے تو اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ مَیں واقعی اس سحر انگیز منظر کا حصّہ ہوں۔ شاید میری طرح نوفل کو بھی یہ سب ایک خواب ہی لگ رہا تھا۔
’’ہم حقیقتاً اس خوب صُورت منظر کا حصّہ ہیں۔‘‘ نوفل نے خاموشی توڑے ہوئے کہا۔ ’’مگر یہ سب کسی خواب سے کم نہیں ہے۔‘‘ مَیں نے اپنی آنکھیں مخملیں گھاس پر جماتے ہوئے جواب دیا۔ ’’اگر خواب اتنے حسین ہوتے ہیں، تو کاش مَیں ہر روز ایسے ہی خواب دیکھوں۔‘‘ نوفل بولا۔
مگر خوابوں کا سفر چند لمحوں پر محیط ہوتا ہے اور آنکھ کُھلتی ہے، تو ہمارے وجود پر صدیوں کی تھکن طاری ہوتی ہے۔
’’دوپہر کے دو بج رہے ہیں زمر! کیا تم دن بھر سوتی رہو گی؟‘‘ امّی کی ڈانٹ بھری آواز نے مجھے خوابوں کی دُنیا سے نکال کر حقیقت میں لا کھڑا کیا۔ ’’ارے امّی جان! چند منٹ اور صبر کر لیتیں۔ مَیں اتنا حسین خواب دیکھ رہی تھی کہ بس کیا بتائوں…‘‘ مَیں نے بے چارگی سے امّی سے اپنے ادھورے خواب کا شکوہ کیا۔ ’’آج تک تمہارا کوئی خواب مکمل ہوا ہے، جو آج چند منٹوں میں ہو جاتا؟‘‘ امّی نے چادر ہاتھ میں لے کر مسکراتے ہوئے پوچھا۔ مَیں نے چادر دوبارہ خود پر ڈالتے اور سر کو تکیے سے ٹکاتے ہوئے زیرِ لب کہا، ’’ہے رُکتا کہاں اِن خوابوں کا بھی سفر… اور تشنگی تعبیر کی بھی جاتی نہیں۔‘‘
’’رُک جائے گا، رُک جائے گا… جب نوفل ہمارے گھر کے دروازے پر کھڑا تمہارا انتظار کر رہا ہو گا۔‘‘ نوفل کا نام سُن کر مَیں نے فوراً اپنے چہرے سے چادر ہٹائی اور حیرت سے امّی کی جانب دیکھنے لگی۔ ’’اب جلدی سے اُٹھو۔ شام کو نوفل تمہیں لینے آ رہا ہے۔‘‘ امّی نے مُجھے دوبارہ اُٹھنے کی تلقین کی اور خود کمرے سے باہر نکل گئیں۔ ’’ارے کیا ضرورت ہے مُجھے اتنی جلدی رخصت کرنے کی؟ کیا نوفل سویڈن سے مُجھے لینے آرہا ہے؟‘‘ مَیں نے امّی کو جلدی جلدی گھر کی صفائی کرتے دیکھ کر سوال کیا۔ ’’کس نے کہا کہ ہم تمہیں رخصت کر رہے ہیں؟ کل رات نوفل چند دن کی چھٹیوں پر پاکستان پہنچا ہے۔ وہ جانے سے پہلے تم سے ملنا چاہتا ہے۔ تمہارے ابّا سے اجازت لینے کے لیے فون کیا تھا، تو وہ انکار نہ کر پائے۔ اب مجھ سے کوئی دوسرا سوال مت کرنا۔ میرا بھتیجا برسوں بعد آرہا ہے۔ اس کے استقبال کی تیاری بھی تو کرنی ہے اور تم بھی فٹافٹ تیار ہو جائو۔‘‘ امّی اپنی بات مکمل کرنے کے بعد دوبارہ گھر کے کام کاج میں مصروف ہوگئیں۔
٭٭٭٭٭٭
نوفل میرے ماموں کا ہونہار بیٹا تھا۔ چند برس قبل ہی اُس کی خواہش اور پُرزور اصرار پر ہم دونوں کا رشتہ طے ہوا تھا۔ مَیں اور میرے گھر والے بھی اس رشتے پر خوش تھے۔ منگنی کے چند روز بعد ہی نوفل اعلیٰ تعلیم کے لئے سویڈن روانہ ہو گیا۔ اس دوران ہمارے درمیان وقتاً فوقتاً بات چیت ہوتی رہی۔ گرچہ اس پورے عرصے میں میری حتی الامکان کوشش رہی کہ ہمارے درمیان کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو، لیکن شاید اس قدر احتیاط کے باوجود بھی خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
٭٭٭٭٭٭
بارش نے موسم کو مزید حسین بنا دیا تھا۔ تیز ہوا اور سمندر کی لہریں دلوں کے تار چھیڑ رہی تھیں۔ بارش سے بھیگنے کی وجہ سے سی ویو کی طویل سڑک پہلے سے زیادہ چمک دار ہو گئی تھی۔ ہر شے نکھری نکھری دکھائی دے رہی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مَیں آج پہلی مرتبہ حقیقت میں نوفل کی ہم سفر تھی۔ ’’زمر! تمہیں اپنے ساتھ ساحل پر لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مُجھے یہاں کی خاموشی بہت پسند ہے اور پھر ایسا سکون اور راحت دُنیا کے کسی کونے میں نہیں مل سکتی۔‘‘ نوفل نے گاڑی سے اُترتے ہوئے کہا۔
پھر کچھ توقف کے بعد دوبارہ گویا ہوا، ’’اپنا وطن، گھر بار، فیملی اور تمہیں چھوڑ کر سویڈن جانا بہت مشکل فیصلہ تھا۔‘‘ ’’جی ہاں، واقعی اپنا وطن چھوڑنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ مَیں تو کبھی بھی اپنے ماں باپ کو تنہا نہیں چھوڑ سکتی۔‘‘ مَیں نے اُس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ پھر نوفل نے ساحل پر کھڑے چاٹ کے ایک ٹھیلے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا، ’’پہلے مزے دار سی چاٹ کھاتے ہیں۔ پھر اس ٹاپک پر تفصیلی بات کریں گے۔‘‘
چاٹ کی پلیٹیں ہاتھ میں اُٹھائے نوفل نے مُجھے ایک بینچ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور پھر کہنے لگا کہ’’ زمر! تمہیں یاد ہے کہ ایک بار تم نے کہا تھا کہ کام یابی کی خاطر انسان کو اپنی خواہشات تک کی قربانی دینا پڑتی ہے۔‘‘ ’’جی بالکل، مُجھے اچّھی طرح یاد ہے، مگر دُنیاوی کام یابی کے لیے اپنے دین اور وطن کی قربانی جائز نہیں ہے۔‘‘ مَیں نے دو ٹوک لہجے میں جواب دیا۔ ’’ زمر! مَیں آج تم پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ پچھلے دو برس کے دوران مَیں بالکل بدل چُکا ہے۔ میری سوچ، میرا رہن سہن، حتیٰ کہ میرا مقصدِ حیات بھی تبدیل ہو چُکا ہے۔‘‘ نوفل میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے مسلسل بولے جا رہا تھا۔ ’’
تم اچّھی طرح جانتی ہو کہ مَیں نے بہت سے نامساعد حالات کا سامنا کیا ہے۔ میرا بچپن ایک کچے مکان میں گزرا۔ ساتویں جماعت تک ایک سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ رُوکھی سُوکھی کھا کر گزارہ کیا، لیکن اپنے مُلک سے بے وفائی کا کبھی نہیں سوچا، مگر اب مَیں سمجھتا ہوں کہ اس مُلک میں کچھ نہیں رکھا۔ یہاں ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ میں نے سویڈن کی ایک معروف یونی ورسٹی سے گریجویشن کیا ہے اور وہاں مُجھے اپنا مستقبل محفوظ نظر آتا ہے۔ ہم وہاں ایک خوش حال زندگی گزار سکتے ہیں۔‘‘
’’نوفل! آخر آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ آپ صاف صاف کیوں نہیں بتا رہے کہ آپ کے وطن لوٹنے اور مجھ سے ملاقات کا اصل مقصد کیا ہے؟‘‘ میں نے نہایت نرمی سے نوفل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کیا۔ ’’مَیں وہی کہنا چاہتا ہوں، جو تم سمجھ رہی ہو۔ مَیں پاکستان میں رہ کر اپنی زندگی برباد نہیں کرنا چاہتا اور اس کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہوں۔‘‘ نوفل نے سخت لہجے میں جواب دیا، تو میرے ارمانوں پر اوس پڑ گئی اور مُجھے اپنے خواب چکنا چُور ہوتے دکھائی دیے۔ تاہم، مَیں نے اپنی پوری ہمّت مجتمع کر کے نہایت دھیمی آواز میں اُس سے پوچھا کہ’’ یعنی آپ پاکستان سے اپنا رشتہ ختم کرنے آئے ہیں۔‘‘ ’’مَیں نے ایسا کب کہا۔ میری پہلی محبت تم ہو اور تمہاری خاطر ہی تو دیارِ غیر کی خاک چھان رہا ہوں۔ ہم دونوں وہاں ایک خُوب صورت اور خوش حال زندگی بسر کریں گے۔‘‘نوفل نے جواب دیا۔
’’ لیکن اگر مَیں پاکستان چھوڑنے سے انکار کردوں، تو کیا کریں گے آپ؟ کیا آپ مُجھے چھوڑنے کے ڈر سے اپنا فیصلہ بدل سکتے ہیں؟‘‘ مَیں نے ایک طویل سانس بَھری اور نوفل کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ ’’زمر! کام یاب لوگ اپنے فیصلوں سے دُنیا بدل دیتے ہیں۔ مَیں کبھی بھی دُنیا کے ڈر سے اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کروں گا۔‘‘ نوفل نے پُر اعتماد لہجے میں میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا۔ ’’میں جُھوٹی محبّت کے چُھوٹ جانے کے ڈر سے اپنی پہچان نہیں بدل سکتی۔ آپ ایک پرندے کی مانند ہیں، جو اپنے مستقبل کی خاطر اپنا آشیانہ چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے، جب کہ مَیں ایک درخت ہوں، جو آخری سانس تک زمین سے جُدا نہیں ہوتا۔ مَیں اس کے علاوہ کچھ اور نہیں کہنا چاہتی۔ اگر آپ نے اس بارے میں کوئی اور بات کرنی ہے، تو میرے والدین سے کر لیں۔‘‘ یہ کہہ کر مَیں بینچ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ نوفل بھی اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا اور کچھ کہے بغیر گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
کچھ ہی دیر میں دونوں واپسی کے سفر پر گام زن تھے۔ بارش کی ٹپ ٹپ کرتی بوندوں کے علاوہ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ میرا ذہن اُلجھن کا شکار تھا اور ہونٹوں پر گویا مہر سی لگ گئی تھی۔ تاہم، زندگی کی یہی حقیقت ہے کہ سَر اُٹھا کر جینے کے لیے بہت سی خواہشات ، خوابوں کی قربانی دینا پڑتی ہے اور ویسے بھی ضروری تو نہیں کہ ہم جس شے کی خواہش کریں، وہ ہمیں مل ہی جائے ۔ اگر مقدّر ہی میں وہ شے نہ لکھی ہو، تو ہزار کوششوں کے باوجود بھی نہیں مل سکتی ۔سو، مَیں ربّ کی رضا میں، صابر و شاکر تھی۔ میرا فیصلہ، میرا اپنا تھا اور میرا دل اس فیصلے پر ٹھہرتا جارہا تھا۔