کسی قوم کی تہذیب سے مراد اُس کے رسوم و رواج، زبان، فنونِ لطیفہ، اخلاقیات اور طرزِ زندگی ٹھہرتے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ تہذیب، اسلامی تہذیب ہے اور اس سے مراد وہ رسوم و رواج اور قوانین ہیں، جو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں وضع کیے گئے ۔ دُنیا بَھر میں پھیلے مسلمان مشترکہ اسلامی تہذیب ہی کی وجہ سے ایک دوسرے سے لگائو اور اُنسیت رکھتے ہیں۔ دینِ اسلام جب خطّۂ عرب سے نکل کر دُنیا کے دیگرخطّوں میں پھیلا، تو اسلامی تہذیب اور ان علاقوں کی ثقافت کا آمنا سامنا ہوا اور چُوں کہ اسلامی تعلیمات کسی خاص نسل، قوم یا گروہ کے لیے مخصوص ہونے کی بہ جائے آفاقی تھیں، لہٰذا جہاں جہاں اسلام پھیلا، وہاں اسلامی تہذیب پروان چڑھنے لگی۔
تاہم، دُنیا کے مختلف خطّوں میں اسلامی تہذیب کے غلبے کے باوجود اُن قدیم ثقافتوں کے اثرات مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے اور ان کے بعض مظاہر آج بھی ہمیں دکھائی دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب میں گلی، محلّوں میں کھیلے جانے والے کھیلوں اور سندھ اور پنجاب کے دیہی کھیلوں میں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے۔ اسی طرح دریا کنارے آباد دیہات میں آج بھی بالکل اُسی طرح اجناس کو محفوظ رکھنے کے لیے مٹّی کے برتن استعمال کیے جاتے ہیں، جیسا کہ ہزاروں برس قبل استعمال کیے جاتے تھے۔
علاوہ ازیں، گائوں سے قصبے یا پکی سڑک تک سفر اور اجناس کی ترسیل کے لیے استعمال ہونے والی بیل گاڑیاں بھی ہزاروں برس قدیم بیل گاڑیوںسے مختلف نہیں ہیں۔ پھر ہمارے معاشرے میں بہت سی ایسی رسومات بھی رائج ہیں، جو یا تو شرعی احکامات کےبرعکس ہیں یا پھر اُن کو کسی حد تک تبدیل کر کے اسلامی شریعت کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کا سبب ہم سے پہلے یہاں بسنے والی وہ اقوام ہیں، جو دینِ حق کو قبول کرنے سے انکاری تھیں۔
سرحدوں کے قدرتی محافظ بلند و بالا پہاڑوں اور سمندر کے علاوہ معتدل آب و ہوا، سر سبز میدانوں اور قدرتی وسائل کی دست یابی کے باعث برصغیر کو نہ صرف ایشیا بلکہ پورے عالم میں ممتاز حیثیت حاصل رہی ہے اور برصغیر کی ان ہی خصوصیات کے باعث یہاں پتّھر کے دَور ہی میں زندگی کا آغاز ہو گیا تھا۔ ذیل میں پاکستان کی قدیم تہذیبوں کی مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
وادیٔ سون کی تہذیب
وادیٔ سون، پنجاب کے ضلع، خوشاب کے جنوب میں واقع ہے، جس کا سب سے بڑا شہر، نوشہرہ ہے، جو خوشاب شہر سے 34اور مشہور سیّاحتی مقام، کلر کہار سے 68کلو میڑ کے فاصلے پر واقع ہے۔ ندی نالوں، آب شاروں، پہاڑوں اور جنگلات سے مزیّن یہ وادی پنجاب کے خُوب صورت ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ علاقائی زبان میں ان پہاڑوں کو ’’پبی کی پہاڑیاں‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ کوہِ ہمالیہ کا ایک نسبتاً کم بلند پہاڑی سلسلہ، کوہِ شوالک بھی اس وادی سے بھارت اور نیپال تک پھیلا ہوا ہے۔ برِصغیر میں زندگی کے قدیم ترین آثار، وادیٔ سون میں واقع ’’چنجی‘‘ نامی گائوں سے دریافت ہوئے ہیں، جن میں ہاتھی اور گینڈے نُما جانوروں کی ہڈیاں شامل ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق آج سے تقریباً 50لاکھ سال قبل یہ عظیم الجُثّہ جانور یہاں پائے جاتے تھے۔ وادیٔ سون میں کم و بیش 5لاکھ برس قدیم انسانی زندگی کے آثار بھی دریافت ہوئے ہیں اور اس تہذیب کو ’’وادیٔ سون کی تہذیب‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ مذکورہ تہذیب کو پتّھر کے دَور کی انسانی تہذیب میں شمار کیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ لوگ پتّھر تراش کر اپنی ضرورت کی اشیا تیار کرتے تھے۔ وادیٔ سون کے قدیم باشندے گرچہ خاندانی نظام سے لاعلم تھے، مگر یہ چھوٹے چھوٹے گروہوں کی صُورت غاروں میں رہتے تھے، جو خاندان اور معاشرے کی تشکیل کی طرف پہلا اہم قدم ہے۔
یہ باشندے خوراک کے حصول کے لیے پتّھر سے بنائے گئے ہتھیاروں کی مدد سے جانوروں کا شکار کرتے ۔ وادیٔ سون میں موجود غاروں میں چھوٹی اور درمیانی جسامت کے حامل جانوروں کی ہڈیاں ملی ہیں، جب کہ بڑے جانوروں کی ہڈیاں غاروں کے باہر کُھدائی کے دوران دریافت ہوئیں، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غار میں مقیم گروہ اپنے لیے خود شکار کرتا، جب کہ کسی بڑے جانور کا اجتماعی شکار کیا جاتا اور اُس کے گوشت میں سب کا حصّہ ہوتا۔ ماہرینِ آثارِ قدیمہ وادیٔ سون کی تہذیب کا شمار حجری دَور کے بہترین معاشروں میں کرتے ہیں اور وادیٔ سون میں بہنے والا دریائے سوان قدیم باشندوں کے لیے خاصی اہمیت کا حامل تھا۔
مہر گڑھ کی تہذیب
مہر گڑھ، بلوچستان کے درّۂ بولان کے قریب واقع ہے۔ قدیم دَور میں یہ راستہ وادیٔ سندھ کو ایران سے ملاتا تھا۔ یہاں 1974ء سے 1984ء اور 1997ء سے2000ء تک فرانسیسی ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی نگرانی میں کی گئی کھدائی کے دوران قدیم تہذیب کے آثار دریافت ہوئے، جسے علاقے کے نام کی نسبت سے ’’مہر گڑھ کی تہذیب‘‘ قرار دیا گیا۔ ماہرین کے مطابق مہر گڑھ تہذیب تقریباً 9ہزار برس قدیم ہے۔ کُھدائی کے دوران ملنے والے آثار سے پتا چلتا ہے کہ مذکورہ تہذیب5 ہزار سال تک قائم رہی اور اس عرصے میں مقامی باشندوں نے ترقّی کے کئی ادوار دیکھے۔
ابتدا میں مقامی افراد شکار کے لیے پتّھر کے ہتھیار استعمال کرتے اور مٹّی کے گھروں میں رہتے تھے ،مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے کاشت کاری اور گلہ بانی کے علاوہ جانوروں کے دُودھ اور گوشت کا استعمال شروع کر دیا۔ علاوہ ازیں، مہر گڑھ کے قدیم باشندے گائے کو مقدّس جانور تصوّر کرتے تھے۔ آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے مذکورہ تہذیب کی پانچ ایسی خوبیاں بیان کی ہیں، جو اسے اپنے دَور کی دیگر تہذیبوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ اوّل، ان لوگوں نے ایشیا میں کاشت کاری کی ابتدا کی اور یوں انسان نے کسی ایک جگہ پر طویل عرصے تک رہنا شروع کیا، جس کے نتیجے میں آگے چل کر دیہات اور شہروں کی بنیاد پڑی۔
دوم، انہوں نے طویل مدّت تک ایک ہی جگہ پر رہنے کے لیے مٹّی اور کچّی اینٹوں کی مدد سے نسبتاً بہتر اور مضبوط مکانات تعمیر کیے۔ سوم، مہر گڑھ کے قدیم باشندے ہُنر مند تھے اور انہوں نے پہلی بار مختلف اشیا کی تیاری کے لیے تانبے کا استعمال کیا۔ ماہرین کو کُھدائی کے دوران یہیں سے پہلی بار انسانی مورتیاں، زیورات، رنگین نقش و نگار سے مزیّن مٹّی کے برتن اور دھاتوں کو مختلف اشکال میں ڈھالنے کے لیے استعمال ہونے والے تانبے کے بنے سانچے ملے۔ چہارم، مہر گڑھ کے قدیم باشندے مذہب سے واقفیت رکھتے تھے اور گائے سمیت دیگر جانوروں اور مظاہرِ فطرت کو مقدّس قرار دیتے تھے ۔ مہر گڑھ تہذیب کی پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ اس نے وادیٔ سندھ کی تہذیب کی بنیاد رکھی۔
وادیٔ سندھ کی تہذیب
وادیٔ سندھ کی تہذیب، جنوبی ایشیا کی پہلی مکمل شہری تہذیب ہے، جو آج سےکم و بیش ساڑھے چار ہزار سال قبل وجود میں آئی اور تقریباً دو ہزار سال تک دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے کچھ علاقوں میں قائم رہی۔ سب سے پہلے 1921ء میں پنجاب کے ضلع ساہی وال میں واقع، ہڑپّا میں ریلوے لائن کی تعمیر کے لیے کی جانے والی کُھدائی کے دوران اس تہذیب کے بعض کھنڈرات ملے تھے، جنہیں مزدوروں کی بے توجّہی کے باعث خاصا نقصان پہنچا۔ بعد ازاں، 1922ء میں سندھ کے شہر، موہن جو دڑو میں ایک اور قدیم شہر کے باقیات دریافت ہوئیں، جو ہڑپّا کے کھنڈرات سے زیادہ بہتر حالت میں تھیں۔ چُوں کہ یہ تہذیب دریائے سندھ کے کنارے آباد تھی، لہٰذا اسے ’’وادیٔ سندھ کی تہذیب‘‘ کا نام دیا گیا۔
ترقّی یافتہ اور مکمل شہری تہذیب ہونے کے باعث وادیٔ سندھ کی تہذیب کا موازنہ اُس دَور کی دیگر ترقّی یافتہ تہذیبوں سے کیا جاتا ہے اور اپنی بعض خوبیوں کے باعث یہ تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ موہن جو دڑو اور ہڑپّا سے دریافت ہونے والے کھنڈرات یہاں رہنے والے قدیم افراد کی زندگی کی واضح عکّاسی کرتے ہیں۔ ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے مطابق یہ دونوں شہر ایک جامع منصوبہ بندی کے تحت آباد کیے گئے تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ موہن جو دڑو شہر دو حصّوں میں تقسیم ہے۔ ایک حصّہ رہایش کے لیے مخصوص تھا، جس میں مکانات اور بازار تعمیر کیے گئے تھے، جب کہ دوسرے حصّے میں دفاتر، عبادت گاہیں، حمّام اور گودام تعمیر تھے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ موئن جو دڑو شہر کی آبادی تقریباً 40ہزار افراد پر مشتمل تھی اور اسے سیلاب سے محفوظ رکھنے کے لیے اس کے گرد مٹّی کا بند تعمیر کیا گیا تھا۔ دُھوپ میں پکی اینٹوں سے بنے گھروں میں بیٹھک، خواب گاہیں اور باورچی خانے الگ الگ تعمیر کیے گئے تھے۔ نکاسیٔ آب کا نظام حیران کُن حد تک جدید اور محفوظ تھا۔ وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر افراد کاشت کاری اور تجارت سے وابستہ تھے اور سمندر کے راستے ان کے روابط برصغیر سے باہر بسنے والی تہذیبوں سے بھی تھے۔ کُھدائی کے دوران ملنے والی مُورتیوں، برتنوں، کھلونوں اور زیورات سے قدیم باشندوں کی مہارت کا بہ خُوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مُورتیوں سے پتا چلتا ہے کہ مقامی افراد سورج کے علاوہ بُتوں کی پرستش بھی کیا کرتے تھے۔ موہن جو دڑو اور ہڑپّا کی کُھدائی کے دوران یہاں سے ملنے والی مُہروں پر بعض اشکال بنی ہوئی ہیں اور تاحال ماہرین ان اشکال کا مفہوم جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، ماہرین اس عظیم الشّان تہذیب کی تباہی کی وجوہ جاننے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ بدترین سیلاب اس تہذیب کی تباہی کا باعث بنا، جب کہ بعض مؤرخین آریا قوم کے حملے کو اس تہذیب کی تباہی کا ذمّے دار قرار دیتے ہیں۔
گندھارا تہذیب
وادیٔ سوات، بونیر اور باجوڑ کے علاقوں میں آج سے کم و بیش 2500برس قبل جنم لینے والی تہذیب کو اس علاقے کی نسبت سے ’’گندھارا تہذیب‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس تہذیب کا مرکز پشاور اور سوات کا علاقہ تھا۔ تاہم، اس کے اثرات پوٹھوہار اور افغانستان تک پھیلے ہوئے ہیں۔ لفظ گندھارا، سنسکرت زبان کے لفظ، ’’گندھ‘‘ سے اخذ شدہ ہے، جس کے معنی خوش بُو کے ہیں اور اسی نسبت سے یہاں کے قدیم باشندوں کو گندھاری یعنی ’’خوش بُو والے لوگ‘‘ کہا جاتا تھا، کیوں کہ عموماً ان کے جسموں سے اُن پُھولوں، پَھلوں اور جڑی بوٹیوں وغیرہ کی خُوش بُو آتی تھی، جو اس پہاڑی علاقے میں عام تھے، جب کہ بعض مؤرخین کا ماننا ہے کہ دَورِ قدیم میں یہاں کے ایک راجا کی بیٹی کا نام ’’گندھاری‘‘ تھا، جس کی نسبت سے یہ علاقہ گندھارا کہلاتا ہے۔
گرچہ مسلمانوں کی آمد سے قبل اس علاقے پر یونانیوں، ایرانیوں اور ہندوئوں کی حکومت رہی، مگر گندھارا تہذیب کے عروج کی وجہ بودھ مَت ہے۔ ہر چند کہ بودھ مَت کے بانی، گوتم بودھ خود کبھی اس علاقے میں نہیں آئے ،مگر تیسری صدی قبل مسیح میں مہاراجا اشوک کے زمانے میں یہاں بودھ مَت کو مقبولیت ملی اور آج بھی سوات، مردان، ٹیکسلا اور اس کے نواح میں بودھ مَت کی نشانیاں موجود ہیں۔ اپنے عروج کے دَور میں ٹیکسلا، گندھارا کا سب سے اہم شہر تھا، جہاں بڑی بڑی درس گاہیں موجود تھیں اور یہاں دُور دراز سے طالبِ علم اپنے علم کی پیاس بُجھانے آتے تھے۔ اس ضمن میں جولیاں کی درس گاہ کے کھنڈرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں، جب کہ دوسری اہم درس گاہ،’’ تخت بھائی‘‘ مردان کے قریب واقع ہے۔
علاوہ ازیں، راول پنڈی، ٹیکسلا اور سوات کے قریب قدیم اسٹوپاز بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ واضح رہے کہ بودھ مَت کی عبادت گاہ کو ’’اسٹوپا‘‘ کہا جاتا ہے۔ چوں کہ گندھارا تہذیب پہاڑوں پر پروان چڑھی، لہٰذا یہاں کے قدیم باشندے پتّھر سے مُورتیاں، برتن اور زیورات بنانے کے ماہر تھے اور آج بھی ٹیکسلا، پتّھر سے تیار کردہ مصنوعات کی وجہ سے مشہور ہے، جب کہ ٹیکسلا کا مطلب بھی ’’پتّھروں سے تراشیدہ‘‘ ہے۔
گندھارا تہذیب کے شہر چھوٹے اور سادہ تھے، جب کہ چار دیواری اور داخلی دروازہ ہر شہر کا بنیادی جُزو تھا۔ گندھارا تہذیب کے خاتمے کی اہم ترین وجہ اس علاقے پر ہونے والے بیرونی حملے تھے، جن میں سب سے نمایاں ہُن قوم کا حملہ تھا۔ ہُن باشندے پانچویں صدی عیسوی میں وسطی ایشیا سے آئے اور گندھارا کو تاراج کر کے واپس چلے گئے، جب کہ ہُن باشندوں کی یلغار سے قبل ہی بودھ مَت، ہندو دھرم کے مقابلے میں کافی کم زور پڑ چُکا تھا۔