کم و بیش دودہائیوں سے جاری توانائی کے بحران سے نمٹنے کیلئے پاکستان نے ترکمانستان اور ایران سے پائپ لائن کےذریعےقدرتی گیس حاصل کرنے کے منصوبے شروع کر رکھے ہیں جنھیں اب تک مکمل ہوجانا چاہئے تھا۔لیکن ایران پر عائد بین الاقوامی تجارتی پابندیوں اور پاکستان میں سیاسی کھینچاتانی کے باعث دونوں طویل عرصے سے التوا کا شکار ہیں۔ اگر یہ بروقت پایہ تکمیل کو پہنچ جاتے تو نہ صرف آج گھر گھر چوبیس گھنٹے گیس دستیاب ہوتی بلکہ اندرون اور بیرون ملک صنعتی پیداوار اورتجارتی سرگرمیاں بلا تعطل جاری رہتیں۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل نے پاکستان کے حصے میں آنے والے پاک ایران منصوبے کو دو مرحلوں میں مکمل کرنے کی منظوری دی ہے۔ پہلے مرحلے میں ایرانی سرحد سے گوادر تک 81کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھائی جائے گی۔اگر امریکا نے کسی قسم کی کوئی پابندی نہ لگائی تو اسے گوادر سے نواب شاہ تک بڑھایا جائے گا۔ جبکہ پابندی برقرار رہنے کی صورت میں پاکستان کے پاس منصوبہ ترک کرنے کا معقول جواز ہوگا۔اس طرح وہ 18ارب ڈالر کے جرمانے اور عالمی ثالثی عدالت کی کارروائی سے بچ جائے گا۔ واضح ہو کہ ایران نے منصوبہ مکمل کرنے کیلئے پاکستان کو 180دن کی ڈیڈلائن میں ستمبر 2024ءتک توسیع دی ہے بصورت دیگر وہ قانونی کارروائی کرے گا۔ یہ امر باعث ستائش ہے کہ ایران نے پاکستان کو اپنی قانونی اور تکنیکی مہارت کی پیشکش بھی کی ہے جس کے تحت منصوبے کی تکمیل میں ایران اسے عملی مدد دے گا۔ امریکہ کوپاکستان کے توانائی بحران سے متعلق زمینی حقائق کا خود ادراک ہونا چاہئے کہ ان حالات میں 25کروڑ کی آبادی کن گوناگوں مسائل سے دوچار ہے جس کی اکثریت ایندھن کے حصول میں متبادل ذ ریعہ اختیار کرنے کی بھی سکت نہیں رکھتی۔