• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک برطانوی نوجوان سندھ کے ایک چھوٹے سے گوٹھ کے اسکول میں بچوں کو پڑھاتے ہیں ۔ انہوں نے لندن سے فزکس میں ماسٹر کیا ہوا ہے لیکن یہاں وہ بچوں کو سندھی میں فزکس پڑھاتے ہیں ۔ اسکول میں تدریس سے پہلے انہوں نے سندھی زبان سیکھی ۔ جس علاقے میں وہ رہتے ہیں ، وہ گرم ترین علاقہ ہے اور وہاں کوئی بنیادی سہولتیں بھی نہیں ہیں ۔ ان کی تنخواہ صرف 15 ہزار روپے ہے ۔ اسی تنخواہ میں وہ گزارہ کرتے ہیں ۔ مقامی لوگ اور اسکول کے طلبہ انہیں پیار سے ’’ بادشاہ ‘‘ کہتے ہیں ۔ بادشاہ نے ایک عظیم مقصد کے لیے اپنی زندگی وقف کی ہوئی ہے ۔ ان کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ بچوں کو مادری زبان میں تعلیم دینے کے سب سے بڑے حامی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ بچہ مادری زبان میں جو کچھ سیکھتا ہے ، وہ کسی اور زبان میں نہیں سیکھ سکتا ۔ بادشاہ کا تعلق ’’ ویلز ‘‘ سے ہے اور انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم بھی اپنی مادری زبان ’’ ویلش ‘‘ میں حاصل کی ۔
بادشاہ کا اصل نام کیا ہے اور وہ سندھ کے کس گوٹھ میں انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں ۔ سکیورٹی وجوہ کی بنا پر یہ بتانا ضروری نہیں۔ ان کا ذکر یہاں اس لیے کیا گیا ہے کہ آج پوری دنیا میں ’’ ماں بولی ‘‘ کا عالمی دن منایا جا رہا ہے ۔ اس دن کی مناسبت سے دل چاہتا ہے کہ ماں بولی میں بچوں کو تعلیم دینے کے سب سے بڑے وکیل بادشاہ کو سلام پیش کیا جائے ۔ یہ دن منانے کے پس منظر کا اگر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی وجہ سے پوری دنیا آج یہ دن منا رہی ہے ۔ مگر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ یہ بات ہمارے لیے باعث فخر ہے یا باعث شرم ۔ یہ دن 21 فروری 1952ء کی یاد میں منایا جاتا ہے ، جب ڈھاکا میں بنگالی کو قومی زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ کرنے والے طلبہ پر پولیس نے گولیاں برسا دی تھیں اور کئی طلبہ شہید ہو گئے تھے ۔ یہ واقعہ ڈھاکا ہائیکورٹ کے نزدیک پیش آیا تھا ۔ بنگلہ دیش نے 17 نومبر 1999ء کو اقوام متحدہ میں یہ درخواست کی تھی کہ 21 فروری کو ہی ’’ ماں بولی ‘‘ کا عالمی دن قرار دیا جائے ۔ بنگلہ دیش کی درخواست پر اقوام متحدہ نے ہر سال 21 فروری کو مادری زبان منانے کا اعلان کیا ۔ 2000ء سے مسلسل یہ دن منایا جا رہا ہے ۔ آج کا دن دنیا بھر کو یہ احساس دلاتا ہے کہ ایسا ملک بھی ہے ، جہاں لوگوں کو اس بات پر قتل کیا گیا کہ انہوں نے اپنی مادری زبان کو اس کی اصل حیثیت دینے کا مطالبہ کیا تھا ۔ یہ احساس بالکل اسی طرح پیدا ہوتا ہے ، جس طرح یکم مئی کو یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ امریکا میں محنت کشوں کو اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرہ کرنے پر قتل کیا گیا تھا یا جس طرح 6 اگست کا دن ’’ ہیرو شیما ‘‘ پر ایٹم بم پھینکنے کے حوالے سے امریکیوں کی ’’ بربری ذہنیت ‘‘ کی یاد دلاتا ہے ۔ زبانیں سب اچھی ہوتی ہیں اور ’’ ماں بولی ‘‘ کا عالمی دن منانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ زبانوں سے نفرت کا خاتمہ کیا جائے اور دنیا کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ کسی ایک زبان کی حیثیت تسلیم کرنے سے کسی دوسری زبان کا جنازہ نہیں نکلتا ہے ۔ پروفیسر کرار حسین مرحوم فرماتے تھے کہ بچے اگر اپنی مادری زبان صحیح طریقے سے نہیں سیکھتے ہیں تو وہ نہ تو صرف دوسری زبانیں صحیح طریقے سے سیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی بہتر طور پر وہ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں ۔ 21 مارچ 1948ء کو جب اردو کو پاکستان کی سرکاری اور قومی زبان قرار دینے کا اعلان انگریزی میں کیا گیاتو مولانا عبدالحمید بھاشانی نے اسی دن متنبہ کیا تھا کہ پاکستان کے قدیم باشندوں کی زبانوں سے انکار قومی یکجہتی کے لیے مناسب نہیں ہے ۔ انسان جو زبان اپنی ماں کی آغوش میں سیکھتا ہے ، وہی اس کی قومی زبان ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آج حکمران مشترکہ زبان کی بات کررہے ہیں ، وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انسانوں کے رنگ اور خدو خال بھی ایک جیسے ہونے چاہئیں ۔ 21 فروری کے واقعہ کے نتیجے میں ’’ بنگلہ لینگویج موومنٹ ‘‘ میں شدت پیدا ہوئی اور بالآخر پاکستان دولخت ہو گیا ۔ عالمی تاریخ میں بالادست اور نو آبادیاتی گروہوں کی طرف سے اپنی زبانیں مسلط کرنے کی کوششیں مسلسل جاری رہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ 1992ء میں امریکی ماہر لسانیات ’’رابرٹ فلپ سن ‘‘ نے ’’ لسانی سامراجیت ‘‘ کے عنوان سے ایک متنازع کتاب بھی لکھی اور اس کے بعد اس موضوع پر بحث بھی شروع ہوگئی کہ بالادست گروہوں کی زبان بھی سامراجیت کا ایک آلہ ہے لیکن دنیا میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ کسی ایک مذہب کی صرف ایک ہی زبان ہو گی ۔ اردو میں رابطہ کی زبان ہونے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے قدیم باشندوں کی زبانوں کو پاکستان اور اسلام کے لیے خطرہ قرار دینے کے تصور پر بڑی بے رحمی سے کام کیا گیا ۔ تاہم کئی اردو بولنے والے زعماء نے اس تصور کی ہمیشہ کھل کر مخالفت کی ۔ آج پاکستان ایک ’’ مشترکہ قومی زبان ‘‘ کے باوجود ’’ بلکا نائزیشن ‘‘ کا شکار ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد مسلمانوں کو ان کی شناخت چھین کر دوبارہ مسلمان بنانے کی جو کوششیں کی گئیں ، ان کا نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔ بندوق بردار لوگوں کا خون بہانا اپنا ’’ مذہبی فریضہ‘‘ سمجھتے ہیں اور اس قتل عام کا جواز پیش کرنا اپنا ’’ قومی فریضہ ‘‘ سمجھ کر ادا کررہے ہیں ۔ آج 21 فروری کا دن ہمیں غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے ۔ یہ دن ہمیں بتاتا ہے کہ زبانیں مر رہی ہیں ، زبانوں کے ساتھ پوری تہذیبیں مر رہی ہیں ۔ وحشت اور درندگی سے نجات پانے کے لیے لوگوں کا اپنی مادری زبانوں سے رشتہ دوبارہ مضبوط کیا جائے ، جن میں انہوں نے لوری سنی ہے ۔ آج کا دن بتاتا ہے کہ زبانوں کو زندہ رہنا چاہئے ۔ تہذیبوں کو زندہ رہنا چاہئے ۔ 21 فروری 1952ء والی سوچ کو بدلنا چاہئے ۔ پاکستان میں اردو ، سندھی بلوچی ، پشتو ، سرائیکی ،ہزارہ ، کشمیری ، براہوی ، ہندکو، شینا، بلتی ، چترالی ، بروشسکی ، مکرانی ، کوہستانی ، کالاشا، گوجری ، تھری ، ماڑواڑی ، کاٹھیاواڑی سمیت 50 سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں ۔ زبانوں کی اس کہکشاں کو چمکتے رہنا چاہئے ۔ 21 فروری کا ازالہ کرنا ہے تو پاکستان کو غیر معمولی اقدامات کرنے پڑیں گے ۔ سندھی ، پنجابی ، بلوچی ، پشتو اور سرائیکی کو قومی زبانوں کا درجہ دینے کے لیے سینیٹر حاجی عدیل کے سینیٹ میں پڑے ہوئے بل کو منظور کر لینا چاہئے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بل بھی منظور کرلینا چاہئے کہ ہر بچے کو ابتدائی پرائمری تعلیم اس کی مادری زبان میں دی جائے گی ۔ آج کے دن بادشاہ کو سلام پیش کرنا چاہئے اور ماضی میں جن بادشاہوں کو قتل کیا گیا یا جیلوں میں ڈالا گیا ، ان کی روحوں سے معافی مانگنی چاہئے ۔
تازہ ترین