مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
زیب النساء سے میری ملاقات اُن دنوں ہوئی، جب دنیا کورونا وبا کے خوف میں مبتلا، ڈری، سہمی اپنے اپنے گھروں میں قید تھی۔ مَیں گلشن اقبال میں ایک فلیٹ میں رہتی ہوں، جہاں گرائونڈ پر کافی بڑی جگہ بچّوں کے کھیلنے اور واک کرنے والوں کے لیے مختص ہے۔ ایک دن مَیں اِس خود ساختہ قید سے گھبرا کر گرائونڈ میں واک کے لیے چلی گئی، وہاں کچھ بچّے کھیل کود میں مصروف تھے اور چند خواتین و مرد واک کررہے تھے۔ مَیں تھوڑی دیر چہل قدمی کے بعد سستانے کے لیے قریب ہی ایک بینچ پر بیٹھنے سے قبل، وہاں پہلے سے موجود ایک خاتون سے اجازت طلب کرکے بیٹھ گئی۔
اُن دنوں ایس اوپیز کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کے پاس بیٹھنے سے بھی گریز کرتے تھے۔ رسمی علیک سلیک اور تعارف کے بعد معلوم ہوا کہ وہ ہمارے ہی اپارٹمنٹ کے سامنے والے بلاک میں رہتی ہیں۔ مجھے وہ بہت خوش اخلاق اور ملن سار سی خاتون لگیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’’مسلسل گھر میں رہنے کی وجہ سے پوتے، پوتیاں پریشان کرتے ہیں، تو انھیں لے کر تھوڑی دیر کے لیے یہاں آجاتی ہوں، اس طرح بچّے بہل جاتے ہیں۔‘‘ ایک گھنٹے بعد جب میں وہاں سے اُٹھی، تو ہماری اچھی خاصی دوستی ہوچکی تھی۔ پھر اگلے روز بھی مَیں گھر کے کام کاج سے فارغ ہوکر اُن کے پاس جا بیٹھی۔
ہم اِدھر اُدھر کی باتوں میں مشغول تھے کہ ان کے موبائل فون پر ایک کال آئی اور وہ فون پر پشتو زبان میں گفتگو کرنے لگیں۔ جب بات کرچُکیں، تو مَیں ان سے پوچھے بغیر نہ رہ سکی کہ ’’آپ تو اردو اسپیکنگ لگتی ہیں، اتنی اچھی پشتو آپ نے کہاں سے سیکھی؟‘‘ انھوں نے اپنی روایتی خوش اخلاقی سے میری طرف دیکھا اور کہا ’’میرا تعلق تو سابق مشرقی پاکستان کے صوبۂ بہار سے ہے، لیکن شادی پٹھان فیملی میں ہوئی ہے۔‘‘ مَیں نے بے تکلفی سے کہا، ’’تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کی شادی یقیناً پسند کی ہوگی؟‘‘میرے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے انھوں نے ایک لمبی آہ بھری اور بولیں، ’’نہیں نہیں، اس کے پیچھے بھی ایک لمبی درد ناک داستان ہے، پھر کبھی سنائوں گی۔‘‘ لیکن پھر میرے اصرار پر انھوں نے اپنی جو داستانِ حیات مجھے سُنائی، وہ قارئین جنگ کی دل چسپی کے لیے اُن ہی کی زبانی پیش کررہی ہوں۔
’’یہ اُس وقت کی بات ہے، جب میری عُمر کوئی پانچ یا چھے برس ہوگی۔ اگرچہ اُس وقت کی بہت سی یادیں، جو میرے ذہن کے نہاں خانوں میں تو تھیں، مگر مکمل جزئیات کے ساتھ یاد نہیں تھیں، جو بعد میں میرے بابا نے مجھے بتائیں۔ ہم دو بہنیں اور دو بھائی اپنے والدین کے ساتھ ڈھاکا کے ایک محلّے محمد پور میں رہتے تھے۔ مَیں سب سے چھوٹی تھی، ہم سب قریب کے اسکول میں پڑھتے تھے۔
ہمارے محلّے میں بنگالی اور اُردو بولنے والوں کی ملی جُلی آبادی تھی، سب پیار و محبت سے مِل جُل کر رہتے تھے۔ ہمارے گھر سے دو گلیاں چھوڑ کر چاچا عبدالرحیم رہتے تھے، وہ بنگالی تھے اور میرے ابّا کے ساتھ ہی فیکٹری میں کام کرتے تھے، اس لیے ابّا کی اُن سے اچھی دوستی تھی۔ اُن کی بیٹی، رشیدہ اور مَیں ایک ہی کلاس میں تھیں اور ایک ساتھ ہی اسکول آتی جاتی تھیں، ہماری بھی آپس میں بڑی پکّی دوستی تھی، ہم شام کو اکثر ایک دوسرے کے گھر کھیلا کرتیں۔ زندگی سُکھ، چَین سے بڑی اچھی گزر رہی تھی کہ ملکی حالات خراب ہونا شروع ہوگئے۔ امّاں، ابّا بھی پریشان دکھائی دینے لگے۔
چند دنوں میں ہمارا اسکول جانا بھی بند ہوگیا اور ہم سب گھر میں قید ہو کر رہ گئے، تو ایک دن بوریت دُور کرنے کے لیے مَیں نے رشیدہ کے گھر جانے کی ضد کی، کیوں کہ ہم پہلے بھی اکثر ایک دوسرے کے گھر کھیلنے کے لیے آتے جاتے رہتے تھے۔ امّاں نے تو صاف منع کردیا، لیکن میری ضد پر ابّا کو مجھ پہ ترس آگیا، انھوں نے امّاں کو سمجھایا، ’’چلو تھوڑی دیر کو جانے دو، بچّے گھر میں رہ رہ کر اُکتا گئے ہیں، عبدالرحیم میرا سب سے بڑا خیر خواہ ہے، وہ زیبو کا بہت خیال رکھے گا۔‘‘ اور پھر ابّا خود مجھے رحیم چاچا کے گھر چھوڑ آئے اور تاکید کہ اُن کے گھر سے اکیلے ہرگز باہر نہ نکلنا۔ میں خود لینے آجائوں گا۔ جب ہم وہاں پہنچے، تو دروازہ رحیم چاچا ہی نے کھولا۔
ہمیں دیکھ کر اُن کے چہرے پر تھوڑی گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار نظر آنے لگے، انہوں نے ہمیں فوراً گھر کے اندر بلا کر دروازہ بند کرلیا، پھر آہستہ سے ابّا سے کہا ’’ارے، حالات اتنے خراب ہیں، آپ کیوں گھر سے باہر نکل آئے، آپ کے علم میں نہیں کہ ہمارا محلّہ بھی شرپسندوں کی نظر میں آگیا ہے، بہتر ہے کہ کچھ روز کے لیے یہاں سے دُور اپنے کسی رشتے دار کے گھر چلے جائیں۔ جب حالات ٹھیک ہوجائیں، تو واپس آجائیے گا۔‘‘ اُن کی بات سُن کر ابّا گھبرا گئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر واپس جاتے ہوئے کہنے لگے، ’’عبدالرحیم! تمہاری بڑی مہربانی کہ تم نے یہ اطلاع دی، ہم فوراً یہاں سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
چاچا نے ابّا کو حوصلہ دیا، ’’ارے یار! ایسے بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں ،ہم سب تمہارے ساتھ ہیں اور وقت آنے پر تمہاری بھرپور مدد کریں گے اور زیبو بیٹی کو کہاں لے چلے، اسے رشیدہ کے ساتھ کھیلنے دو، تھوڑی دیر بعد مَیں خود اِسے گھر چھوڑ دوں گا، ہاں، تم قیمتی سامان وغیرہ اکٹھا کر کے بس یہاں سے نکلنے کی تیاری کرلو۔‘‘ اُن کی اپنائیت بھری باتیں سُن کر ابّا مجھے اُن کے گھر چھوڑ کر چلے گئے اور مَیں اپنی سہیلی رشیدہ کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہوگئی۔
تقریباً ایک گھنٹے بعد جب اندھیرا چھانے لگا، تو چاچا نے مجھ سے کہا، ’’چلو بیٹی! رات ہونے والی ہے، مَیں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ آئوں۔‘‘ ابھی وہ یہ کہہ ہی رہے تھے کہ رشیدہ کا بھائی گھبرایا ہوا گھر میں داخل ہوا اور پھولی ہوئی سانسوں میں بتایا کہ مکتی باہنی کے غنڈے محلّے میں گھس آئے ہیں اور اردو بولنے والوں کے گھروں میں لوٹ مار کر رہے ہیں۔ یہ سنتے ہی رحیم چاچا بہت پریشان ہوگئے اور انہوں نے جلدی سے مجھے کمرے میں لے جاکر ایک بڑے سے صندوق میں چُھپا دیا اور سختی سے تاکید کی، ’’جب تک میں نہ کہوں، باہر نہ آنا اور نہ کوئی آواز نکالنا۔‘‘میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا، پھر بھی میں ڈر کر صندوق میں گھس گئی، باہر سے آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ اچانک چاچا کا دروازہ زور زور سے پِیٹا جانے لگا۔
رحیم چاچا نے دروازہ کھولا، تو بہت سے لوگ اندر گھس آئے اور چلّا چلّا کر چاچا سے بنگالی میں سوال جواب کرنے لگے۔ چاچا بنگالی زبان میں اُنہیں یقین دلاتے رہے کہ وہ بنگالی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ لوگ تھوڑی دیر تک گھر کے اندر چکّر لگاتے رہے، پھر واپس چلے گئے۔ اُن کے جانے کے بعد چاچا نے اچھی طرح دروازہ بند کیا اور مجھے صندوق سے باہر نکال لیا، لیکن کمرے ہی میں چُھپا کر رکھا، وہ لوگ مجھے کمرے میں بند کرکے باہر سے دلاسے دینے لگے، مَیں گھبرا کر زارو قطار رونے لگی، پھر رشیدہ اور اس کی والدہ نے زبردستی مجھے بہلا پُھسلا کر رات کا کھانا کھلایا اور میری بے پناہ ضد کے باوجود مجھے میرے گھر لے کر نہیں گئے۔ رات کے سائے گہرے ہونے لگے اور باہر بھی طوفان کے بعد وحشت ناک سنّاٹا چھا گیا، تو مَیں بھی روتے روتے سوگئی۔
صبح چاچا نے کہا، ’’جلدی سے ناشتا کرلو، پھر تمہیں گھر چھوڑ آتا ہوں۔‘‘ اُنہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ میرے گھر میں کیا قیامت برپا ہوگی۔ جب مَیں چاچا کے ساتھ چادر میں چُھپی اپنے گھر پہنچی ، تو وہاں ایک اندوہ ناک منظر تھا۔ وہ وحشت ناک منظر آج بھی میرے دل و دماغ پر نقش ہے، جسے یاد کرکے آج بھی مَیں دہشت سے چیخیں مارنے لگتی ہوں۔ کمرے میں میرے بابا، امّاں اور بہن بھائیوں کی خون آلود لاشیں پڑی تھیں، ہرطرف بکھرا سامان اور رگوں میں اُتر جانے والا خوف ناک سنّاٹا، رات کو گزرنے والی قیامت کی داستان سُنا رہا تھا۔ رحیم چاچا نے مجھے چادر سے اچھی طرح ڈھانپ کر اپنی گود میں چُھپا لیا۔ اُن کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، وہ گرتے پڑتے، بھاگتے ہوئے مجھے اپنے گھر لے آئے، خوف اور دہشت سے میں رونا بھی بھول چکی تھی۔
رحیم چچا نے مزید دو دن تک مجھے اپنے گھر میں چُھپائے رکھا، تیسرے روز ایک ریلیف کیمپ میں لے گئے، جہاں میری طرح بہت سے غموں سے چُور لُٹے پٹے بے سہارا لوگ تھے، وہ سب اردو بولنے والے تھے۔ اس دور کا وہ کیمپ آج بھی موجود ہے، جو ’’جنیوا کیمپ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ کیمپ کے اردگرد حفاظت کے لیے بہت سارے فوجی متعین تھے۔ مَیں نے کچھ دن وہیں امّاں، ابّا اور بہن بھائیوں کو یاد کرکے روتے دھوتے گزارے، پھر ایک دن، ایک شفیق چہرے اور سیاہ گھنی داڑھی والے ایک بارعب سے انکل کو پتا چلا کہ مَیں بالکل تنہا ہوں، تو انہوں نے پیار سے مجھے گود میں اُٹھالیا اور کہا، ’’اب تم میری بیٹی ہو۔‘‘ میں نے روتے ہوئے کہا، مجھے اپنے امّی ابّا کے پاس جانا ہے، تو بولے، مَیں بھی تمہارا بابا ہوں۔ بہرحال، خان بابا مجھے لے کر ایک بڑے سے گھر میں آگئے۔
وہاں سانولی رنگت اور خُوب صُورت آنکھوں والی ایک عورت تھی۔ بابا نے میرا ہاتھ اُن کے ہاتھ میں پکڑا کر کہا ’’یہ تمہاری امّی ہیں۔‘‘ خان بابا کا تمباکو کا کاروبار تھا اور اُن کا اصل گھر پشاور میں تھا۔ کاروبار کی وجہ سے اُن کا اکثر مشرقی پاکستان آنا جانا رہتا تھا۔ اُن ہی دنوں انہیں ایک خُوب صُورت بنگالی حسینہ پسند آگئی، تو انہوں نے اُس سے شادی کرلی تھی، لیکن اس سے اُن کی کوئی اولاد نہ تھی۔ امّی نے بہت پیار سے مجھے گود میں لے لیا اور میں بھی اُن سے بہت جلد مانوس ہوگئی۔
پھر کچھ عرصے بعد پتا چلا کہ بنگلا دیش الگ ہوگیا ہے، مشرقی اور مغربی پاکستان دو الگ الگ ملک بن چکے ہیں، مگر عُمر کے اُس دور میں مجھے ایسی باتوں سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ کچھ عرصے بعد بابا نے اپنا کاروبار مکمل طور پر کراچی میں شفٹ کرلیا، لیکن اُن کی بنگالی بیوی پاکستان شفٹ ہونے پر بالکل بھی رضامند نہ تھیں، بالآخر چند مہینوں کی چپقلش کے بعد امّی نے اپنا فیصلہ بھی سُنادیا کہ وہ اپنے ماں باپ، بہن، بھائی اور خاندان کے بغیر ایک دوسرے ملک نہیں رہ پائیں گی، یوں اُن کی طلاق ہوگئی۔
بابا مجھے لے کر اپنے پشاور والے گھر آگئے، جہاں ایک نئی دنیا میری منتظر تھی۔ اِن چند برسوں میں، مَیں کافی سمجھ دار بھی ہوگئی تھی۔ خان بابا کا گھر بہت بڑا تھا، جہاں خان بابا کے چھوٹے بھائی، جنہیں سب بچّے ’’چاچا جی‘‘ کہتے تھے۔ اُن کے چھے بچّے، خود خان بابا کے سات بچّے، بے بے جان (خان بابا کی بیوی) چاچی جی اور خان بابا کی دو غیر شادی شدہ بہنیں سب مل جُل کر رہتے تھے۔ پہلے ہی دن بابا نے پورے کنبے کو جمع کرکے میرا تعارف کروایا کہ یہ میری چھوٹی بیٹی ہے زیبو، پھر انھوں نے سب کو خاص تلقین کی کہ اس کا بہت خیال رکھنا ہے۔
کچھ دنوں تک تو اُن کے گول مٹول، سرخ و سفید چہروں والے بچّوں میں اپنا دبلا پتلا، سانولا سلونا ساوجود اَن فٹ سا محسوس ہوا، لیکن وہ سب لوگ بھی خان بابا کی طرح اتنی محبّت کرنے والے شفیق لوگ تھے کہ میں ایک بار پھر سب کچھ بُھول بھال کر اُن کے ساتھ گُھل مِل گئی۔ بے بے جان اور چاچی جی میرا بہت ہی خیال رکھتی تھیں، بلکہ مجھے تو یوں لگتا تھا کہ جیسے وہ اپنے بچّوں سے بھی زیادہ میرا خیال رکھتی ہیں۔ بے بے جان اور سب نے مل جُل کر پشتو زبان سیکھنے میں میری بھرپور مدد کی، اس طرح بہت تھوڑے ہی عرصے میں، مَیں نے اُن کی زبان، اُن کے طور طریقے اور رہن سہن اپنا لیا۔
وقت تیزی سے گزرتا گیا، خان بابا کا کاروبار کی وجہ سے زیادہ تر وقت کراچی میں گزرتا تھا، اس لیے انہوں نے یہاں بھی ایک گھر خرید لیا۔ ہم لوگوں کا بھی اکثر سیرو تفریح کے لیے کراچی آنا جانا رہتا تھا، خان بابا کے دونوں بڑے بیٹے اکرم بھائی اور افضل بھائی اور چاچا جی کے بیٹے اشرف بھائی اور احمد بھائی بھی تعلیم کی غرض سے کراچی میں ہی قیام پذیر تھے۔ دونوں پھوپیوں کی شادیاں ہوچکی تھیں۔ ہم میں سے زیادہ تر بچّے بھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چُکے تھے۔ اکرم بھائی اور افضل بھائی بھی تعلیم مکمل ہونے کے بعد خیر سے شادی شدہ ہوچکے تھے۔ اُن کی دو بہنیں پہلے ہی پیا دیس سدھار چکی تھیں۔ بے بے جان کی باتوں سے مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اب بابا کو میری شادی کی سخت فکر لاحق ہے۔
میرا چھوٹا قد، دبلا پتلا لاغر جسم اور سانولی رنگت میری شادی میں رکاوٹ بن سکتی تھی اور پھر بابا مجھے اَن جان لوگوں میں بیاہنے پر بھی راضی نہ تھے، وہ اکثر بے بے جان سے کہتے، ’’اگر پرائے گھر میں اس بچّی کو ذرا سا بھی دُکھ پہنچا، تو مَیں اپنے اللہ کو کیا جواب دوں گا۔‘‘ اور پھر، ایک روز چاچا جی اپنے بیٹے اشرف کے ساتھ میرا رشتہ پکا کرنے کی رسم کرنے آئے، تو مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ میرا اور اشرف کا کوئی جوڑ نہ تھا۔
وہ خاندان بَھر میں سب سے ہونہار، خُوب صُورت، تعلیم یافتہ اور فرماں بردار نوجوان تھا۔ اسے کوئی بھی تعلیم یافتہ اور خُوب صُورت لڑکی مل سکتی تھی۔ بہرحال، میرا رشتہ اشرف سے طے پا گیا۔ چند مہینوں بعد میری اور اشرف کی شادی ہوگئی اور میں اُن کے ساتھ کراچی والے گھر میں شفٹ ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ میرے خان بابا اور بے بے جان کو کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے۔ (آمین) ایسے لوگ دنیا میں کم ہی ہوتے ہیں۔ (روبینہ ادریس، گلشنِ اقبال، کراچی)