• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام !لاہور میں آمد بہاراں ہے لیکن نہیں، شہر کی رت پر گردوغبار کا غلبہ ہے کہ الیکشن سے پھوٹی بہار جمہوریت روک دی گئی ۔پھوٹتی کونپلوں، چٹختی کلیوں اور کھلتے کھلتے رنگ برنگ پھولوں کی مسکراہٹوں کو شاہرائوں گلی محلوں میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر بدبوپھیلاتے گند دکھاتے پریشان لاہور پر مسلط ہیں۔معلوم ہے کہ لاہور ملکی مرکز سیاست بھی ہے سیاسی سودے بازی ہو یا نظام بد کی انجمن دفاع نظام بد کے فساد و متضاد گروہوں کے عوام دشمن گٹھ جوڑ، جمہوریت کا لبادہ اوڑھے کسی نئے میثاق جمہوریت میں بندھ کر ساتھ چلنے کے لئے جاری ہیں۔ کچھ یہاں موجود ہیں اور یہاں پہنچتے بھی ہیں پھر جو ڈیرے داری ہوتی ہے تو بہاروں کو روکنے اور کانٹے ساتھ مل کر بچھانے کی باہمی کوششوں پر مشترکہ ٹھیکہ طے ہوتا ہے ۔آئین و قانون سے عاری بااختیار سہولت کاروں کی کوئی کمی نہیں ،بس بابوئوں کا خیال رکھنا اول ومقدم ہے ان کے حصے میں کسی بحث و کمی کی کوئی گنجائش نہیں پھر باہمی مفاد کے لئے جو چاہے اقتدار کی تیار دیگ میں سے طے شدہ بانٹ کی تقسیم کے ساتھ جتنی چاہوفرمائشیں کرو سب منظور، خواہ عوام کا کچومر نکل جائے انہیںڈرانے ، دھمکانے دبانے کا سب سازو سامان موجود کوئی فکر نہیں فاقہ تو کیا ہونا ان کی تو عوامی سیاست بھی بریانی ،نان اور ٹوکروں اور ڈیروں سے چلتی ہے اب تو ’’ووٹ کو عزت‘‘ کے جھنجھٹ سے بھی آزاد کوئی آزادی سی آزادی ہے کون سا آئین اور کیسا قانون جب چاہو دفعہ 144لگا دو اپنے کو ضرورت ہو ہٹا دو کونسا آرڈر کیسا وارنٹ ،جسے چاہو جب چاہو پکڑلو، گھروں میں گھس کر پکڑلو ساتھ گھر پیارے آباد گھر کو اجاڑ دو۔ بچوں کا کیا وہ تو ڈرتے سہمتے ہیں ہی عورتوں کا کام تو رونا دھونا،جیتے امیدوار ہوں یا پارٹی لیڈر یا باقی پارٹیوں کے گستاخ سیاسی کارکن، خواہ یہ گھروں میں دبک جائیں بھاگ کر محفوظ پناہ کی تلاش میں دربدر پھریں۔ ان کے کاروباراجڑ جائیں یا سینٹ میں آکر اپنی داستان ظلم وستم چیخ چیخ کر سنائیں۔حتیٰ کہ ’’فتنہ پرو راپوزیشن‘‘ کے نامزد امیدوار برائے وزارت اعلیٰ مقدس و منتخب ایوان میں پہنچنے کا ہر سوراخ بند کر دو، اپنی پولیس اس دن نہیں تو اور کب کام آئے گی۔یہ شنید ہوئی تو یقین نہ آیا، تصدیق ہوئی کہ میاں اسلم کا داخلہ ناممکن اور مزید کوشش میں گرفتاری لازمی ہے تو نگران فسطائیت کی دیدہ دلیری کے درجہ کا اندازہ ہوا اس کے بعد کون سی نوید صبح، کیسی امید اور کیسی بہار جمہوریت، یہ تو فقط سوہانہ سیاسی ابلاغ ہوتا ہے اس کا اصل سیاست سے کیا تعلق واسطہ بس نظام بد کے تحفظ کا لازمہ ہے ۔

اور ہاں ،یہ بہار جمہوریت نے یاد دلایا بات تو لاہور میں آمد بہار کی ہو رہی تھی اس کے ساتھ گردو غبار کے بڑھتے چڑھتے غلبے و تسلط کی جو مافیا راج کا سرخیل ہے۔الگ ہے کہ سرخیل کا سرخیل کون ہے ؟ کسی کو معلوم نہیں تو خیر ملکی وفاو دفاع کے پیکر عوام کو تو معلوم ہے راج سے یاد آیا 25کروڑ پریشان حال کے مقابل آٹے میں نمک نظام بد کے بڑے بڑے بینی فشریز کو مبارک!بہار جمہوریت روک دی گئی تو کیا غم، نگرانی سرکار سے زرداری، شہباز سرکار نکلنا ٹھہر گیا۔کیسی خبر ہے ؟کوئی بڑی خبر نہیں اس کے جواب اور اس کی تشریح و تجزیے پر حیرت ویرت تو اپریل 22میں رمضان المبارک میں لگے اسلام آباد کے بازار سیاست نے ہوا میں اڑا دی تھی پہلے ایسے بازار شہر سے دور چھانگا مانگا کے بازاروں اور مرکز اقتدار سے دور سوات کے آسودہ ماحول میں لگتے تھے ۔دو سال قبل شہر اقتدار میں لگا تو یہ رد انقلاب اور نظام بد کا ارتقا نہیں تو اور کیا ہے ؟’’اک زرداری سب پر بھاری‘‘ کا بیانیہ سر چڑھ کر بول رہا ہے اب انتظار ہے تو اس کا کہ زرداری، شہباز سرکار کیا رنگ دکھائے گی اس کا بھی انتظار کیسا ؟امکانی نتائج خاصے واضح آئینی عہدوں کو چمک دمک، ٹور ٹپا پی پی کا بلاکے اختیار عہدے ن لیگ کے انتخابی عذرداریاں اور مقدمات کی بھرمار میں سرکار دوبار لگنے میں تو کوئی رکاوٹ نہیں سندھ بلاول کی مٹھی میں تو پنجاب مریم بی بی کا ٹھہرا۔ان کی پکی وفادار معاون مریم نواز صاحبہ اب بھی پریشان و پچھتاوے میں ہیں جیسےتیسے ایوان میں داخل ہونے کے قابل کر دی گئیں تو بھی اضطراب کا اظہار کیا۔کچھ ایسا فرمایا ’’فتنے کا سر پہلے ہی قلم کر دیا جاتا تو یہ نہ ہوتا‘‘ توبہ توبہ ،توبہ ...نہ جانے یہ دل دھڑکانے والا (سیاسی ہی سہی ) ابلاغ النسا کسی پر کیسے گزرا، ناچیز کو تو پریشان کر گیا فکر لاحق تادم ہے کہ اب انہیں کہیں صوبے کی اطلاعات کی وزارت یا کوئی حکومتی ترجمانی جیسا منصب نہ مل جائے۔ ‘‘فتنہ‘‘ ڈھا ئی سالہ اولیگارکی (مافیا راج) کمیونی کیشن میں کس کے خلاف کان پڑے پروپیگنڈے میں استعمال کیا گیا یہ تھیوری اب غلط ثابت ہوتی جا رہی ہے کہ عوامی یادداشت بہت کمزور ہوتی ہے ۔8فروری کو ووٹنگ کے غیر متوقع انقلابی رجحان نے ثابت نہیں کیا یا واقعی مریم نواز صاحبہ اب اصل نتائج کو اصل نہیں مان رہیں وہ بھول گئیں تو ذرا یاد کریں الیکشن روکنے کے لئے مچائے گئے کھلواڑ میں ’’فتنہ‘‘ کسے کہا جاتا رہا تو اور آپ کی وزارت اطلاعات اور داخلہ نے کتنی غیر ذمے داری سے اس کی مہلک ابلاغی مہم چلائی غنیمت جانیں کہ اس کا جواب بمطابق نہیں آیا اور عوام نے فقط اپنے مینڈیٹ سے دیا۔ سوشل میڈیا کے منڈوں پر فتوے تو بہت لگتے ہیں وگرنہ جو ابلاغ دو سالہ کھلواڑ میں وزارت داخلہ کے رانا راج میں اجڑے عوامی خزانے سے وزیر بے محکمہ کی سیاسی منہ زوری سے بذریعہ سرکاری ٹی وی ہوتا رہا اس کا جواب آتا تو کیا ہوتا کیا مریم صاحبہ کےپچھتاوے کو اسی کا تسلسل سمجھا جائے ؟اگر ہاں تو اللہ خیر ۔ناچیز پر سخت گراں گزرا جب ہمارے صوبے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے بنائی گئیں پہلی خاتون وزیر اعلیٰ کی اسمبلی اجلاس میں موجودگی پر انہیں بازاری منڈوں کی سی نعرہ بازاری کے شور میں قدرے گھبرایا اور سنبھلتا پایا لیکن رات گئے پنجاب میں الیکشن سے باہر کی گئی تحریک انصاف کو پارلیمانی سہارا دینے والی سنی کونسل کے صاحبزادہ احمد رضا کی یہ وضاحت کان میں پڑی کہ سنی کونسل کے جن اراکین اسمبلی نے جو انتہا کا غیر پارلیمانی شور شرابہ ہر دو محترمائوں مریموں کی نشست کے قریب آکر کیا وہ تو جواب آں غزل تھا کہ پہلی ن لیگ اراکین نے تحریک انصاف کے قائد کے خلاف میاں نواز شریف کی تصاویر اٹھا کر اودھم مچاتے ہوئے کہا تاہم ان سے گزارش ہے کہ وہ آئندہ اجلاس میں اپنا حوصلہ اور وقار قائم رکھیں فی الحال اس شعر پر اکتفا کریں۔

قفس میں ہوں مجھے آزادیاں آواز دیتی ہیں

میرے پر کھول دو پروہیاں آواز دیتی ہیں

(جاری ہے )

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اورواٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین