• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے عمران خان کی سیاست اور بنیادی نظریات سے اختلاف رہا ہے لیکن آج کل جو عمران خان کےساتھ ہو رہا ہے مجھے اس سے بھی شدید اختلاف ہے۔ مجھے عمران خان پر اعتراض تھا کہ وہ مکمل جمہوری نہیں تھا مگر جو آج کل ہو رہا ہے وہ کونسا جمہوری ہے؟ میں عمران خان پر تنقید کرتا تھا کہ اس نے مقتدرہ کے ساتھ مل کر میڈیا کا ناطقہ بند کیا ہوا تھا مگر آج کل میڈیا کونسا آزاد ہو گیا ہے؟ میں کہتا رہا ہوں کہ عمران خان مہنگائی پر قابو نہیں پا سکا اب میں سوچتا ہوں کہ کیا اب مہنگائی رک گئی ہے؟ میں سوچتا تھا کہ عمران خان نے مقتدرہ کے ساتھ ملکر 2018ء کا الیکشن جیتا تھا، اب یہ سوچتا ہوں کہ 2024ء میں جو ’’چن‘‘ چڑھایا گیا ہے یہ بھی تو مقتدرہ کے ساتھ ملکر ہی ہوا ہے۔ میں نکتہ چیں تھا کہ عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفوں کو جیلوں میں کیوں بند کر رکھا ہے، اب سوچتا ہوں کہ عمران خان اور اسکے ساتھی جیلوں میں بند کیوں ہیں؟ میں کہتا تھا کہ عمران خان نے بطور سویلین وزیر اعظم اپنی جگہ مقتدرہ کو دیکر سول سوسائٹی کے ساتھ ظلم کیا، اب سوچتا ہوں کہ عمران خان کے جانے کے بعد وزیر اعظم کو کونسی سویلین SPACEمل گئی؟ مجھے عمران حکومت کی گورننس پر شکایت رہی مگر اب میں خود سے سوال کرتا ہوں کہ بعد میں آنے والوں نے کونسا کمال دکھا دیا ہے؟ بہت سے لوگ یہ کہتے رہے کہ عمران کی کابینہ میں اہل افراد نہیں تھے سوال یہ ہے کہ اب کون سے راجہ ٹوڈرمل آ جائیں گے، ان کا بھی جلد پتہ چل جائے گا۔ عمران خان نے جیو، جنگ گروپ پر پتھر برسوائے میر شکیل الرحمن کو کئی ماہ قید میں رکھا، آج بھی صحافی گرفتار ہو رہے ہیں سوچتا ہوں بدلا کیا ہے عمران خان کی غلطیاں آج بھی ہو رہی ہیں بلکہ اس سے بُرے اور بھدے انداز میں ہو رہی ہیں میں گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے اندرونی کشمکش کا شکار رہا ہوں اسی لئے شاہ حسین سے ماخوذ، سمندری کے رہنے والے بابا ندیم قادری کا تضمینی کلام جسے رمضان جانی نے گایا ،بار بار سنتا رہا ہوں۔

اساں اُتوں شانت جاپدے

ساڈے اندر لگی جنگ

اسی اندرونی کشمکش میں مبتلا سیاست کا یہ ادنیٰ طالب علم شہباز شریف کے دور حکومت میں کشاں کشاں لندن پہنچا اور نواز شریف سے عاجزانہ گزارش کی کہ جو کچھ عمران خان نے آپ کے ساتھ کیا آپ کو وہ کچھ عمران خان کے ساتھ نہیں کرنا چاہئے، انتقام کا دائرہ ختم ہونا چاہئے، میں نے درخواست کی کہ مستقبل کی سیاست آپ کے ہاتھ میں ہونی چاہئے نہ کہ مقتدرہ کے ہاتھ میں۔ عمران خان سیاست دان ہیں انکے فیصلے بھی سیاست کے ذریعے ہونے چاہئیں، عدالتی اور انتظامی فیصلوں سے سیاست اور جمہوریت دونوں تباہ ہو جائیں گے۔ میاں نواز شریف نے مجھے مایوس لوٹا دیا بلکہ طعنہ دیا کہ آپ عمران خان کے وکیل بن کر آ گئے ہیں۔ میں اور میرے کئی سینئر دوست مصالحت کی یہی درخواست عمران خان کے پاس بھی لے کر گئے اور انہیں مشورہ دیا کہ آپ سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھ جائیں انہوں نے ترنت جواب دیا کہ ہم ان کرپٹ لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں ہم مقتدرہ سے بات کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ ہم سے بات کرنا نہیں چاہتی، میں نے لقمہ دیا کہ آپ مقتدرہ کے ساتھ یکطرفہ طور پر اعتماد سازی کے اقدامات کریں اس سے ماحول بہتر ہو جائے گا، افسوس کہ خان صاحب نے بھی یہ مشورہ نہ مانا اور پھر چند دن بعد 9مئی کا واقعہ ہو گیا۔

کوئی مانے نہ مانے 8فروری کے بعد سے حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ نواز شریف کی سب سے بڑی سیاسی غلطی عمران خان کے بارے میں فیصلہ سازی مقتدرہ پر چھوڑنا تھی، اگر وہ مقتدرہ سے بات کرتے کہ سیاست کے فیصلے مجھے کرنے دیں تو مقتدرہ باوجود تحفظات کے یہ بات مان جاتی کیونکہ اس وقت اسے نواز شریف کی اشد ضرورت تھی۔ عمران خان کی دوسری فاش غلطی یہ ہے کہ وہ سیاست کی پلیٹ میں بیٹھ کر اہلِ سیاست کو بھی برا بھلا کہتے ہیں اور انہی کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔ ملک کے ان دو بڑے لیڈروں کے فیصلوں نے ملک میں عدم استحکام اور بے چینی کو جنم دیا ہے جسکے ختم ہونے کا فی الحال تو کوئی چانس نظر نہیں آ رہا۔

ساڈے اندر لگی جنگ کے مصداق میں سوچتا ہوں کہ عدالتوں نے نواز شریف کے ساتھ بے انصافی کی، پھر خیال آتا ہے کہ عمران خان اور اسکی جماعت کے ساتھ کونسا انصاف ہو رہا ہے۔ اگر اُس وقت کے می لارڈوں کھوسہ، ثاقب نثار، شیخ عظمت سید اور اعجاز الاحسن نے غصے، نفرت اور انتقام میں فیصلے دیئے تو آج کے جج بھی تو ناانصافی اور دبائو کے تحت ہی فیصلے دے رہے ہیں، اگر نون لیگ کو 2018ء میں ہرانے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا گیا تو کیا 2024ء میں تحریک انصاف کو ہرانے کیلئے تمام حدیں عبور نہیں کی گئیں؟ اگر نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کیلئے ناجائز فیصلہ سنایا گیا تو عمران خان کو پارٹی کی چیئرمینی سے الگ کرنا کونسا درست فیصلہ ہے پھر پی ٹی آئی کو پارٹی نشان سے محروم کرنا انکی محفوظ نشستیں نہ دینا کیا تاریخ کے اوراق میں انصاف گردانا جائے گا؟

ہم سوچتے تھے کہ عمران کے بعد مکمل جمہوریت آئے گی لیکن ہم تو پہلے سے بھی بدترحال میں چلے گئے، ہمارا خیال تھا کہ عمران غلط ہے اسکے جانے سے میڈیا آزاد ہو جائے گا مگر میڈیا آج بھی پابندیوں کا شکار ہے۔ ہم سوچتے تھے کہ عمران کو گورننس نہیں آتی اس لئے معیشت کابرا حال ہو گیا ہے، اب خیال آتا ہے کہ اسکے جانے کے بعد کونسی خوشحالی آ گئی ہے، ہمارا خیال تھا کہ عمران خان آزاد عدلیہ میں مداخلت کرکے غلط کر رہا ہے اب دیکھتے ہیں کہ اسی طرح کی مداخلت اب بھی جاری ہے۔ عمران خان نے خارجہ پالیسی میں ہاتھ باندھے رکھے نہ انڈیا سے برف پگھلائی نہ سی پیک کو آگے بڑھایا، اب بھی وہی صورتحال ہے بلکہ افغانستان اور ایران سے دو نئے محاذ کھل گئے ہیں۔

ہمیں یہ اعتراف کر لینا چاہئے کہ عمران خان کے بعد حالات بدتر ہوئے ہیں کوئی بہتری نہیں آئی، اسی لئے اربن مڈل کلاس نے کھمبوں کو بھی ووٹ ڈالے ہیں اور اگر یہی کچھ جاری رہا تو عمران خان کے سیاسی دیوتا بننے میں کوئی کسر نہیں رہ جائے گی۔ یاد یہ رکھنا چاہئے کہ جیل کے اندر بند عمران خان کا اپنے اس سیاسی قد بڑھنے میں خود اتنا کردار نہیں ہے جتنا اس کے مخالفوں کا ہے۔ عمران کا دور حکومت بہت برا تھا مگر اب اس سے بھی برے حالات ہیں اسی لئے عمران اچھا محسوس ہونے لگا ہے۔ کاش! اہل اقتدار اس تقابل کو پڑھ کر ملک کو آئین، قانون اور انصاف کے راستے پر چلانے کی طرف متوجہ ہو جائیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین