حکومت پاکستان کی جانب سے ایرانی بارڈر سے گوادر تک اکاسی کلومیٹر گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری نے ایک مرتبہ پھر پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے کومیڈیا کی زینت بنادیا ہے، بلاشبہ نگراں کابینہ توانائی کمیٹی اجلاس نے ملک میں جاری توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے دہائیوں سے تعطل کے شکار پاک ایران پائپ لائن منصوبے کے حوالے سے ایک بڑا اہم فیصلہ کیاہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران کی بارڈر سے گوادر تک گیس پائپ لائن بچھانے سے 45ارب روپے کی لاگت آئے گی جبکہ پائپ لائن بچھانے سے پاکستان کو سالانہ پانچ ارب روپے کی بچت ہوگی، صارفین کو سستی گیس کی فراہمی یقینی بنائے جائے گی، پاکستان کے اپنے قریبی پڑوسی ایران سے تعلقات کو فروغ ملے گا، ایران پاکستان کو اٹھارہ ارب روپے جرمانے کی ادائیگی کا نوٹس واپس لے گا جبکہ پاکستان امریکہ سے عالمی پابندیوں سے استثنیٰ بھی طلب کرے گا۔ یہ نوے کی دہائی کے وسط کی بات ہے جب پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے1995ء میں اپنے دورِ حکومت میں ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے کا آغاز کیا، اس زمانے میں اسے پیس پائپ لائن (Peace Pipeline)یعنیٰ امن کی پائپ لائن کا نام بھی دیا گیا، ابتدائی منصوبے کے مطابق ایران سے گیس پائپ لائن کو پاکستان کے ساحلی شہر کراچی تک پہنچنا تھا اور پھر براستہ پاکستان بھارت تک جانا تھا ، اس منصوبے سے پاکستان کو نہ صرف سستی گیس کی فراہمی یقینی ہوتی بلکہ بھارت سے راہداری کی مد میں بھی بھاری زرمبادلہ حاصل ہونا تھا، تاہم ایران پر امریکی پابندیوں اور بھارت کی جانب سے سیکورٹی خدشات سے یہ منصوبہ آگے نہ بڑھ سکا ، نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملے اور بلوچستان میں عسکریت پسندی نے بھی اس عظیم منصوبے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا، بھارت نے 2008ء میں امریکہ سے سول نیوکلیئر ڈیل سائن کرنے کے بعد اپنے آپ کو ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے سے الگ کرلیا جبکہ پاکستان کیلئے امریکہ اورایران کے ایک نظریاتی حریف ملک کے سفارتی دباؤکا سامنا کرنا مشکل ہوتا گیا۔ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے بعد آصف زرداری منصب صدارت پر فائز ہوئے تو انہوں نے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کی ٹھان لی، زرداری صاحب نے اپنے دور اقتدار میں ایران کے آٹھ سے زائد دورے کیے، زرداری صاحب کو پاک ایران گیس پائپ لائن کے حوالے سے عالمی دباؤکا شدید سامنا تھا، ایران پر امریکی پابندیاں عائد ہوچکی تھیں اور بھارت بھی اس منصوبے سے لاتعلق ہوچکا تھا ، ایسے حالات میںایران کے ساتھ تعاون کرنا آسان نہ تھا لیکن زرداری صاحب نے پاکستان کے قومی مفادات پر کسی بھی قسم کا کمپرومائز نہ کرنے کااصولی فیصلہ کیا اورمارچ 2013ء میں اپنے ایرانی ہم منصب محمود احمدی نژادکے ساتھ گیس پائپ لائن کا افتتاح کرکے سب کو حیران کردیا، دونوں ممالک کے سربراہان مملکت نے چاہ بہار میں منعقدہ خصوصی تقریب میں اس منصوبے کی باضابطہ نقاب کشائی کرکے عالمی برادری کو ایک واضح پیغام بھیجاکہ اپنے عوام کی ترقی و خوشحالی کیلئے عالمی دباؤکی پروا نہیں کی جائے گی، آج زمینی حقائق یہ ہیں کہ جس منصوبے کو جنوری 2015میں فعال ہونا تھا، وہ نو سال بعد بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکااور پاکستان پر عائد یومیہ جرمانے میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے، دوسری طرف بھارت نے پاکستان کومکمل نظرانداز کرتے ہوئے ایران کے ساتھ زیرسمندر براہ راست گیس پائپ لائن بچھانے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔ میں نے روزنامہ دی نیوز میں 25مارچ 2022ء کو شائع اپنے ہفتہ وار کالم میں تحریر کیا تھا کہ زرداری صاحب اپنے سابقہ دورصدارت میں مذکورہ گیس پائپ لائن منصوبے کو خطے میں پاکستان کے قائدانہ کردار کیلئے بہت ضروری سمجھتے تھے، انکے خیال میں بھارت کو گیس پائپ لائن کی فراہمی سے پڑوسی ممالک کا انحصار پاکستان پر بڑھے گا جو خطے میں امن اور طاقت کا توازن برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوگا۔اگرچہ ایران نے شیڈول کے مطابق پائپ لائن کے اپنے حصے کی تعمیر مکمل کر لی لیکن ہماری طرف سے کوئی قابلِ ذکر پیش رفت نہیں ہوسکی۔میں سمجھتا ہوں کہ گزشتہ دہائی میں برسراقتدار میں آنے والے حکمراں بھی اگرملکی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے تو یہ عظیم منصوبہ بر وقت مکمل ہو چکا ہوتا اور ملک میں توانائی کے بحران پر ہمیشہ کے لیے قابو پا لیا جاتا۔میری نظر میں امن پائپ لائن کی کامیابی کا دارومدار آئندہ صدرآصف علی زرداری کی دور اندیش قیادت پر ہے ، مجھے یقین ہے کہ وہ پاک ایران گیس پائپ لائن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے اور ملکی مفاد کے فیصلے کرکے ایک مرتبہ پھر سب کو حیران کردیں گے۔ میری نظر میں اگر بھارت اور ایران نے پاکستان کو نظرانداز کرتے ہوئے کوئی متبادل راستہ اختیار کرلیا تو خطے میں ہماری جیو اسٹریٹجک اہمیت کو بھی شدید دھچکا پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)