• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ٹکڑا پنجاب کی نومنتخب وزیرِاعلیٰ محترمہ مریم نواز کی اُس تقریر کا ہے جو اُنہوں نے اسمبلی سے 220 ووٹ حاصل کرنے کے فوراً بعد ایوان میں عالمِ بےساختگی میں کی۔ وہ اِس لحاظ سے بڑی خوش قسمت ہیں کہ اُنہوں نے پہلی بار اِنتخابات میں حصّہ لیا اور پنجاب کی پہلی خاتون وزیرِاعلیٰ منتخب ہوئیں۔ وہ اِس انتخاب پر بڑی عاجزی سے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائیں جس نے اُنہیں عزت کا مقام عطا کیا اور عوام کے نمائندوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اُن پر اعتماد کا بھرپور اظہار کیا۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ مجھے حزبِ اختلاف کے بائیکاٹ پر دکھ ہوا ہے، کیونکہ اِس کا جمہوریت کے استحکام میں قابلِ قدر حصّہ ہوتا ہے۔ مجھے خوشی ہوتی کہ اپوزیشن میری تقریر کے دوران شوروغُل مچاتی رہتی اور اَپنے وجود کا اِحساس دلاتی۔ پھر اُنہوں نے پورے اعتماد اَور پورے یقین کے ساتھ کہا کہ اپوزیشن کے لیے میرے دفتر، میرے دل اور میرے چیمبر کے دروازے ہر وقت کھلے ہیں اور مَیں انتقام اور نفرت کی سیاست دفن کر دینا چاہتی ہوں۔ مَیں اُن کی بھی وزیرِاعلیٰ ہوں جنہوں نے مجھے ووٹ دیے ہیں اور اُن کی بھی وزیرِاعلیٰ، بیٹی اور بہن ہوں جنہوں نے ووٹ نہیں دیے۔ اُن کے اِس طرزِ تخاطب نے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا اور اُنہیں ایک نئے عہد کی خوشبو محسوس ہوئی۔

اُن کی تقریر جو خاصی طویل تھی، وہ بھی لوگوں کے دلوں میں اترتی گئی اور اُن کے بلندقامت سیاسی حریفوں نے برملا اعتراف کیا کہ اُنہوں نے بہت اچھا روڈمیپ دیا ہے۔ بلاشبہ محترمہ نے اُن بنیادی مسائل پر جچی تُلی بات کی جن کا عام آدمی کو سامنا ہے اور جس نے اِس کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ اُنہوں نے صحت اور تعلیم کے معاملات پر بہت باریک بینی سے گفتگو کی اور وَاضح کیا کہ عوام کو مہنگائی کے عذاب سے نکالنے اور اُن کا معیارِ زندگی بلند کرنے کے لیے فوری طور پر کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔ اِسی طرح اُنہوں نے نوجوانوں کی عمدہ تعلیم و تربیت اور اُن کے روزگار کی فراہمی میں جو رکاوٹیں درپیش ہیں، اُن کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے اُس پروگرام کا نقشہ پیش کیا جس کے ذریعے اُنہیں معاشرے کا سب سے بیش قیمت سرمایہ اور قومی عظمت کا معیار بنایا جا سکتا ہے۔ اِس کے علاوہ اُن کی تقریر میں خواتین، بچوں، اقلیتوں اور کسانوں کے تحفظ اور ترقی پر خصوصی توجہ دی گئی اور عملی اقدامات کا اعلان بھی کیا گیا۔ وزیرِاعلیٰ مریم نواز نے زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلی لانے کا عزم کیا اور ترجیحات کی ایک فہرست پیش کی۔ صاف محسوس ہو رہا تھا کہ اُنہوں نے بہت زیادہ ہوم ورک بڑی دیدہ وَری سے کیا ہے اور حکومت کی نزاکتوں کا بھی خیال رکھا ہے۔ بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ اُنہیں حکمرانی اور اَیڈمنسٹریشن کا کوئی تجربہ نہیں، لیکن اُنہوں نے اپنے والد گرامی اور اَپنے نہایت اعلیٰ منتظم چچا کو پنجاب اور مرکز میں حکومت کرتے ہوئے بہت قریب سے دیکھا ہے اور متعدد فلاحی منصوبوں میں براہِ راست حصّہ بھی لیا ہے۔ یہ اُنہی کی بالغ نظری تھی کہ اُنہوں نے نوجوانوں کی ایک ٹیم تیار کر کے سوشل میڈیا کا نظم قائم کیا تھا۔

مریم نواز صاحبہ نے جرأت اور بےباکی کا جوہر اپنی والدہ محترمہ کلثوم نواز سے وراثت میں لیا ہے۔ جس زمانے میں جناب نوازشریف اور مسلم لیگ نون کا جنرل مشرف ناطقہ بند کیے ہوئے تھے، تب محترمہ کلثوم نواز ایک شیرنی کی مانند باہر نکلیں اور اِس انداز سے جھپٹیں کہ پورا منظرنامہ تبدیل ہو گیا۔ عزیمت کا یہی کام محترمہ مریم نواز نے اُس وقت سرانجام دیا جب اسٹیبلشمنٹ نے اُن کے والد نوازشریف کو سخت آزمائشوں سے دوچار کر دیا تھا۔ اُنہوں نے اپنے والد کے ہمراہ جیل کی صعوبتیں برداشت کیں اور رَہا ہونے کے بعد سالہاسال مسلم لیگ نون کا خون گرمائے رکھا۔ وہ مسلسل عوام کے ساتھ رابطے میں تھیں اور اُن کے دکھ درد سے پوری طرح واقف ہیں۔ بلاشبہ اُنہوں نے مردوں سے زیادہ جواںمردی کا ثبوت دیا اور نہایت مشکل وقت میں اپنے خاندان، اپنی جماعت اور پاکستان کی بقا کے لیے جدوجہد کی۔ یہ اِنہی کی پُرعزم سیاسی اور اِنتخابی سرگرمیوں کا ثمر ہے کہ میاں نوازشریف لندن سے واپس آ کر قائدانہ کردار اَدا کر رہے ہیں اور مسلم لیگ نون نے عام انتخابات میں اِس قدر کامیابی حاصل کر لی ہے کہ وہ سیاسی اتحاد کے ذریعے مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئی ہے اور قومی منظرنامے کے اندر مرکزی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ حکومت سازی میں پیپلزپارٹی کا کردار بھی قابلِ ستائش ہے اور ایم کیو ایم بھی ایک نئی مضبوط سیاسی حیثیت کے ساتھ اُبھری ہے۔

ہمیں امید ہے کہ مسلم لیگ نون کی قیادت مشاورت کا دائرہ وَسیع کرے گی اور جماعت سے وابستہ اہل افراد کی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے گی۔ اچھی حکمرانی میں سب سے زیادہ اَہمیت ٹیم ورک کو حاصل ہے۔ اب سینیٹ کے انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔ اِس میں خالی نشستوں پر ایسے کارکن بھیجے جائیں جو مسلم لیگ نون اور پاکستان کے وقار میں اضافہ کر سکیں۔ ہم سالہاسال سے جناب محمد مہدی جو مسلم لیگ نون سے وابستہ ہیں، اُن کی صلاحیتوں سے واقف ہیں۔ وہ خارجہ اُمور پر نہایت پُرمغز کالم بھی لکھتے، سیمیناروں میں بہت فکرانگیز گفتگو کرتے اور اَہم ملکوں کے سفیروں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ اگر اُنہیں سینیٹ میں جانے کا موقع مل جائے، تو وہ قومی سطح پر نہایت عمدہ کردار اَدا کر سکتے ہیں۔ اِسی طرح خواجہ سعد رفیق کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے کا بھی کوئی باوقار اِنتظام ہونا چاہیے۔ اُنہیں بھی اللہ تعالیٰ نے قابلِ قدر صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ وہ بھی کھلے ذہن اور کھلے دل کے آدمی ہیں۔

اِس وقت سب سے بڑی ضرورت مہنگائی، بےروزگاری اور اِقتصادی بدحالی پر قابو پانا ہے، اِس لیے محترمہ مریم نواز کو اَپنے صوبے کے اقتصادی ماہرین کی مشاورت سے ایک ایسا برق رفتار پروگرام وضع کرنا ہو گا جو عوام کو مہنگائی کی آگ سے باہر نکال سکے اور مایوسی پر قابو پایا جا سکے۔ مایوسی کسی قوم کے لیے بہت موذی مرض کی حیثیت رکھتی ہے جو صلاحیتوں اور اُمنگوں کو چاٹ جاتا ہے۔ اِس ضمن میں اہلِ قلم اور اَہلِ دانش سے استفادہ ضروری محسوس ہوتا ہے۔

تازہ ترین