• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گذشتہ سے پیوستہ)

قارئین کرام! جاری موضوع آئین نو کی گزشتہ دو قسطوں میں واضح کیا گیا کہ کیسے 8 فروری کا الیکشن ہفتوں سے پنجاب پر چھائے غبار (اسموگ) کے بعد آمد بہار کو کتنا آلودہ کرگیا۔ ذراغور تو کریں کہ اس سے زیادہ پارلیمانی انتشار اور کیا ہو سکتا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں نامزد روپوش اپوزیشن لیڈر اسلم اقبال متنازع اجلاس و ایوان میں داخل ہی نہ ہو سکے، اور اسمبلی چیمبر کے گرد پولیس کا کڑا گھیرائو دیکھ کر واپس لوٹ گئے۔ وزیر اعلیٰ نے حلف اٹھایا تو اپوزیشن ایوان میں ہی موجود نہ تھی، وہ متبادل اپوزیشن لیڈر رانا اقبال کے ہمراہ اسمبلی کی بیرونی سیڑھیوں پر سراپا احتجاج تھی۔ پہلے ہی اجلاس میں جتنی بھی دیر حکومتی اور اپوزیشن ارکان بیک وقت موجود رہے دونوں ہی شدید مضطرب و مشتعل کیفیت میں رہے، مسلسل چور چور کی زور دار احتجاجی نعرے بازی سے پنجاب اسمبلی کی بڑی درجے پر متنازعہ ہوئی حیثیت کی واضح تصدیق ہوئی۔ ادھر سندھ اسمبلی کے کراچی حیدر آباد سیکشن کی طرف سے تو گاہے گاہے احتجاجی رویہ صوبائی پارلیمانی کلچر کا روایتی فیچر بن گیا ہے،لیکن اس بار اسمبلی کے پہلے ہی اجلاس میں اندرون سندھ سے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے شریک احتجاجیوں کے ساتھ احتجاج کے لئے کراچی پہنچا تو اس کا پولیس سے شدیدٹکرائو ہوا اور تشدد پکڑ دھکڑ بھی۔ قبل ازیں اندرون سندھ میں پی پی کی روایتی انتخابی حریف جمعیت علما اسلام کے امیر سینیٹر راشد سومرو نے دعویٰ کیا کہ اگر منصفانہ تحقیق ہو اور وہ لاڑکانہ کی نشست سے کامیاب قرار نہ دیئے گئے تو سیاست چھوڑ دیں گے۔ سینیٹرسومرو کا الزام ہے کہ وہ اس نشست سے بلاول کے مقابلے میںہزاروں ووٹوں سے جیتے ہوئے ہیںجس کے تمام ثبوت ان کے پاس موجود ہیں لیکن دھاندلی سے رزلٹ روک کر بڑی گڑ بڑ سے بلاول کوجتوایا گیا۔ کراچی میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی 9 فروری سے مسلسل سراپا احتجاج ہیںاب تو عوام الناس کو ’’انتخابی نتائج‘‘ میں وسیع پیمانے کی تلپٹ کا یقین ایم کیو ایم کے ڈپٹی چیئرمین مصطفیٰ کمال کے پارٹی اجلاس میں اس بریفنگ سے بھی ہوگیا جس کی ویڈیو دو روز قبل سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی اور مین اسٹریم میڈیا کے ذمے دار سیکشن پر بھی دکھائی گئی۔ ویڈیو میں مصطفیٰ کمال شرکا اجلاس کو مسلم لیگ ن کے رہنمائوں سے ملاقات کے بعد ان (مسلم لیگ ن) کے اس اعتراف سے یوں آگاہ کررہے ہیں کہ وہ تو بتا رہے ہیں کہ ’’آپ (ایم کیو ایم) پر تو جیت کی دھاندلی کے لگے 70 فیصد الزامات درست ہیں جبکہ ہمارے (ن لیگ) پر تو لگے یہ الزامات 100 فیصد درست ہیں‘‘۔یہ ویڈیو وائر ل ہوتے ہی سوشل میڈیا کے سنجیدہ اور بااعتماد سیکشن میں تو ’’الیکشن‘‘ میں نتائج کو یکسر الٹ کرنےکا الزام ثبوت بن کر ابلاغی طوفان مانند منٹوں میں امڈ آیا۔ اس پر مصطفیٰ کمال کی ایک مختصر سی وضاحتی ویڈیو مین اسٹریم میڈیا پر دکھائی گئی جو اجلاس میں بیان کئے گئے مصطفیٰ کمال کے بیان کے مقابل بودی ہے۔

یہ کئی سوال پیدا کرگئی جو کے جواب دینا مصطفیٰ کمال کے لئے مشکل ہوگا۔ سو اس کا فرانزک لازم ہوگیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ’’الیکشن کمیشن‘‘ کی غیر جانبداری اور انصاف کا معیار انتخابی مہم کے دورانیے میں ہی پی ٹی آئی کے امیدواروں اور کارکنوں کے خلاف نگرانی فسطائی حربوں، ہتھکنڈوں پر کمیشن کی مکمل خاموشی سے بے نقاب ہو گیا تھا پس منظر میں بھی کئی ماہ سے یوں لگ رہا تھا جو انعقاد انتخاب پر مکمل ثابت ہو گیا ایسے کہ ’’کمیشن اپنے واحد آئینی فریضے‘‘ آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخاب کے انعقاد سے متصادم فقط پی ٹی آئی اور اس کے اسیر قائد کے خلاف انہیں الیکشن سے باہر رکھنے اور پارٹی کیلئے زیادہ سے زیادہ مشکلات اور رکاوٹیں پیدا کرنے کیلئے وقف ہو گیا ہے اور اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور کام نہیں۔ رہی سہی مدد اسے (الیکشن کمیشن ) نگرانی فسطائیت کی غیر آئینی معاونت سے برابر ملتی رہی ۔یہ اب متنازعہ نہیں کھلے ثبوتوں کے ساتھ ایک زندہ حقیقت ہے نظام انصاف اور الیکشن کمیشن کا ستم غیر جمہوری و غیر قانونی کردار اتنا منفی ہے کہ شدید مشکلات و مصائب میں مبتلانے جب اپنے تازہ مینڈیٹ اور عزم و ہمت سے خود ہی خوف کے ماحول میں ٹھان لی کے وہ ہی ملک کو بحران سے نکالیں گے تو نظام بد نے عوامی عدالت کا گلا گھونٹ دیا لیکن سانس تو اب بھی باقی ہے۔ عوام کے اعتماد و یقین اور این او سی کے بغیر کوئی مسلط حکومت ادھورے ایوان اور معمول کی قانونی موشگافیوں کی آڑ میں ہارے اور جعلی نامزد اراکین کی اسمبلیوں اور حکومتوں کی تشکیل بھلا کیسے استحکام بخش ہوسکتی ہے ؟مہنگائی و بیروزگاری اور غربت کے مارے عوام کے تاریخ ساز جمہوری رویے و جذبے کو آئین شکنی سے وجود میں آنے والی حکومتیں پہلے بھی مہلک ہی ثابت ہوتی رہیں تو یہ اب کیسے یکدم نیکوکار ہو کر ملک و قوم کا بھلا کریں گی؟عوام نے تو آمد بہار پر الیکشن کو بہار جمہوریت میں تبدیل کرنے کا سارا اہتمام کر دیا تھا لیکن ہر دو بہاراں کو گندے گردو غبار سے مکدرکردیا گیا۔ اب عوام اور صحافیوں کی صورت یہ ہے کہ لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام۔

گزشتہ روز بڑی تعداد میں سخت متنازعہ ’’جیتی ‘‘ نشستوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور اقلیتوں کی نمائندگی کے بغیر تشکیل حکومت کا مرحلہ ادھوری قومی اسمبلی کے جس ابتر ماحول میں ’’تکمیل‘‘ کو پہنچا اس پر قرائن مستقبل قریب میں ایوان کے ثمرآور ہونے سے محرومی اور سیاسی پارلیمانی انتشار کی خبر دے گئے۔عوامی ووٹ کو جس طرح رسوا کرکے جعلی جیت کے جعلی دستاویزی ریکارڈ میں تبدیل کیا گیا ہے اب بے قابو ہوتی مہنگائی و بیروزگاری غربت کے بعد اجڑی لٹی سماجی عزت نفس کی بحالی کا پہاڑ جیسا چیلنج اداروںکےسامنے پھر کھڑا ہے لیکن مشکل نیست کہ آساں نہ شد/ مرد باید کہ ہراساں نہ شد (وہ مشکل ہی نہیں جو آساں نہ ہو جائے جیسے وہ مرد ہی نہیں جو ہراساں ہو جائے)۔ (جاری ہے)

تازہ ترین