امریکہ کے چھ سینئر تجارتی عہدیداروں کے اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کا ارادہ رکھنے والی حالیہ خبروں کے ساتھ بنیادی طور پر انڈو پیسفک اکنامک فریم ورک (IPEF) پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے، جو کہ ایشیا پیسیفک کے حوالے سے امریکی جیو اکنامک پالیسی کے اہم ستونوں میں سے ایک ہے۔ خطے کے علاوہ بحر ہند، ہند بحرالکاہل کی حکمت عملی (IPS) کی اندرونی خامیوں کو مزید بے نقاب کیا گیا ہے۔
’’انڈو پیسفک‘‘کی اصطلاح مصنوعی طور پر بنائی گئی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے تک، ایشیا پیسفک کی اصطلاح بحر الکاہل اور بحر ہند کے کنارے کے علاقوں کی اقوام کیلئے استعمال کی جاتی تھی۔ کسی بھی سیاسی گفتگو یا جغرافیائی لٹریچر میں کوئی ’’انڈو پیسفک‘‘نہیں ہے جب تک کہ اسے 2007 میں آنجہانی جاپانی وزیر اعظم شنزو ایبے نے پہلی بار متعارف نہیں کروایا تھا۔ متعلقہ امریکی انتظامیہ نے اسکی پیروی کرتے ہوئے، ابھرتے ہوئے عالمی منظرنامے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے استعمال کیا۔ خطے کیلئے اس کا جیو اسٹرٹیجک ایجنڈا لفظی طور پر، ’’انڈو پیسفک‘‘ کی اصطلاح پوری طرح سے ہند، ایشیا، بحرالکاہل خطے کی نمائندگی نہیں کرتی، کیونکہ اس وقت حکمت عملی میں صرف امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور ہندوستان شامل ہیں۔
ہند-آئی پی ایس اپنے آغاز سے ہی غلط تصور کیا گیا ہے۔ یہ اپنی جگہ ایک داستانی جال ہے۔ یہ تعمیر ایک ’’آزاد اور کھلے ہند-بحرالکاہل خطہ‘‘ کی وکالت کرتی ہے، تاہم اعلان کردہ ’’آزاد اور کھلا ہند پیسفک‘‘ اس حقیقت کے خلاف ہے کہ اس حکمت عملی پر عمل کرنے سے یہ خطہ مزید آزاد نہیں رہے گا۔ اس کے بجائے یہ امیر اور طاقتور ممالک کا ایک منتخب ایلیٹ کلب بنے گا۔ IPS نے بہت سی دوسری ریاستوں اور خاص طور پر بحر ہند کے ساتھ چھوٹی، کم اقتصادی طور پر طاقتور ریاستوں کو آسانی سے نظر انداز کر دیا ہے، کیونکہ یہ چار ستونوں پر مرکوز ہے۔ پاکستان، برصغیر کا ایک اہم ملک اور دنیا کی ایک بڑی اسلامی ریاست، امریکہ کے بیان کردہ ’’انڈو پیسفک‘‘پیرامیٹر کے اندر نہیں ہے۔ اسکے پاس آئی پی ایس کے بھیس میں اس جیو اسٹرٹیجک چال سے دور رہنے کی ہر وجہ ہے۔
ہند-بحرالکاہل کی تعمیر ریاست ہائے متحدہ کیلئے جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر سے بحر ہند اور بحرالکاہل کے خطے کو جوڑنے کا ایک آئیڈیا ہے، تاکہ خطے میں اپنا تسلط یقینی بنایا جا سکے۔ آئی پی ایس کا مقصد نہ صرف ایشیا پیسفک کا نام اور خطے میں مؤثر علاقائی تعاون کے فریم ورک کو مٹانا ہے بلکہ کئی دہائیوں سے مشترکہ کوششوں سے علاقائی ممالک کی طرف سے فروغ پانے والی امن اور ترقی کی کامیابیوں اور رفتار کو بھی متاثر کرناہے۔ امریکہ’’آزادی اور کھلے پن‘‘کے جھنڈے تلے ممالک کے چھوٹے منتخب گروپ کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے، اور ایشیا پیسفک ممالک کو امریکی بالادستی کے ’’پیادے‘‘بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ آئی پی ایس، جس کو شروع سے ہی غلط سمجھا گیا تھا، QUAD اور AUKUS کی شکل میں حفاظتی جہت کو غلط جگہ دے کر اور اس پر زور دے کر، چین کی طرف سے پیش کردہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے ردعمل کے طور پر بڑے پیمانے پر پہچانا جاتا ہے۔ اس کا مقصد علاقائی ممالک کو BRI، خاص طور پر 21ویں صدی کے میری ٹائم سلک روڈ انیشی ایٹوکی پیش رفت کو روکنے کیلئے متبادل منصوبے پیش کرنا ہے۔ امریکہ نے باضابطہ طور پر چین کو’’سب سے زیادہ نتیجہ خیز جغرافیائی سیاسی چیلنج‘‘کے طور پر شناخت کیا ہے۔ سینئر حکومتی عہدیداروں نے کھلے عام کہا کہ گزشتہ 40 سال سے چین کی ترقی کی رفتار کو تبدیل کرنے کی امریکی پالیسی ناکام رہی ہے، امریکہ کو چین کی ترقی روکنے کے لیے چین کے ارد گرد اسٹرٹیجک ماحول اور علاقائی حرکیات کو تشکیل دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس لیے ایشیا پیسفک میں ایک نئی سرد جنگ چھیڑنے کے اس کے حقیقی ارادے کو نظرانداز نہیں کیاجا سکتا۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ آئی پی ایس بنیادی طور پر ایک حکمت عملی یا سیاسی تدبیر ہے جو چین کو گھیرے میں لے کر، بحر ہند اور بحرالکاہل کی ریاستوں کے ساتھ چین کے تعلقات کو خراب کرنے اور چین کی پرامن ترقی کو روکنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے باوجود، یہ اپنی اندرونی اور بیرونی پابندیوں کی وجہ سے چین پر کافی محدود اثر ڈالے گا۔
سوال یہ ہے کہ آیا آئی پی ایس کو کامیابی سے لاگو کیا جا سکتا ہے؟ خطے کی چھوٹی ریاستیں بڑی حد تک فریق بننے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں اور اس طرح انہوں نے آئی پی ایس کو محفوظ اور محتاط انداز میں جواب دیا ہے۔ درحقیقت، وہ سب پریشان ہیں کہ علاقائی فن تعمیر کے لیے IPS کے ممکنہ طویل مدتی اثرات کیا ہوں گے۔ یوکرین کے مسلسل بحران اور موجودہ اسرائیل-فلسطینی تنازع نے ’’انڈو پیسفک‘‘خطے کی طرف امریکی محور پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا ہے، اس طرح اس کی رفتار میں خلل پڑ رہا ہے ۔ آئی پی ای ایف، آئی پی ایس کا اقتصادی ونگ، ہے یہ آگے بڑھتے ہوئے مزید سنگین مسائل کا سامنا کر سکتا ہے۔ امریکی حکومت کے اہلکاروں کے نکلنے سے نہ صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ آئی پی ای ایف کے سست عمل درآمد پرمایوسی کا اظہار بھی کرتے ہیں بلکہ آئی پی ایس کی فضول کوششوں اور بے مقصد سمت کو بھی واضح کرتے ہیں۔ لیکن چین نے پہلے ہی موثر اقدامات کیے ہیں۔ چین کی طرف سے تجویز کردہ گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹواور گلوبل سیکورٹی انیشی ایٹو(GSI) مشترکہ ترقی، حقیقی کثیر جہتی اور مشترکہ سلامتی کے لیے ہیں۔ موجودہ منظر نامے میں، یہ درحقیقت خطے اور پوری دنیا کی بہتر ترقی اور سلامتی کو مضبوط بنانے کے راستے ہیں۔
(صاحب تحریرلاہور میں عوامی جمہوریہ چین کے قونصل جنرل ہیں)